سپریم کورٹ: چیف جسٹس کا حکومت سندھ، ایم ڈی اے کو بحریہ ٹاؤن کی زمین کے سروے کا حکم
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی پیمائش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو بحریہ ٹاؤن کے نمائندے کے ہمراہ سروے کر کے 23 نومبر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی 7 درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے حکومت سندھ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی دوستی ہوگئی ہے، رقم کا ایک حصہ بحریہ ٹاؤن نے جمع کرایا اور دوسرا بیرون ملک سے آیا، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور حکومت سندھ دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیے جائیں، اب دونوں کا اتفاق ہے کہ رقم حکومت سندھ کو منتقل کی جائے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کو تمام متعلقہ منظوریاں دی تھیں جس پر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے کہا کہ 16 ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آؤٹ پلان کی منظوری دی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر دی؟ زمین عوام کی تھی ایم ڈی اے کی ذاتی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں رقم جمع کرانے والے افراد اور کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
دوران سماعت مشرق بینک کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہوں نے کہاکہ مشرق بینک کو نوٹس دینے کی وجہ سمجھ نہیں آئی، بینک نے اگر رقم منتقل کی بھی ہے تو کسی اکاؤنٹ ہولڈر نے ہی دی ہو گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینک والے بتا دیں رقم کس نے منتقل کی تھی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بینک کو تفصیلات فراہم کی جائیں تو شاید کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں، روزانہ ہزاروں ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں اس لیے فی الوقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
عدالت نے کہا کہ مشرق بینک کے وکیل کے مطابق رقم بھیجنے والی تفصیل ڈیٹا ملنے پر ہی فراہم کی جا سکتی ہے، مشرق بینک متعلقہ معلومات ملنے پر رقم بھیجنے والے کی تفصیلات فراہم کرے۔
اس موقع پر بحریہ ٹاؤن کی گارنٹی دینے والے ملک ریاض حسین کے وکیل سلمان بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ علی ریاض کے بھی وکیل ہیں؟ جس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ علی ریاض اور ملک ریاض الگ شخصیات ہیں، مجھے علی ریاض کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا باپ بیٹا آپس میں بات نہیں کرتے؟ مناسب ہوگا ملک ریاض کے بیٹے اور اہلیہ کے حوالے سے معلوم کرلیں، ایسا نہ ہو عدالت کوئی حکم جاری کرے اور ان کے حقوق متاثر ہوں۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ ملک ریاض کے اہلخانہ سے خود رابطہ نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے موکل ملک ریاض سے ہدایات لیں گے، ہوسکتا ہے ملک ریاض کہیں کہ ان کا بیٹا اور اہلیہ بالغ ہیں اور اپنا فیصلہ خود کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم حتمی ہو چکا، اس پر عملدرآمد ہرصورت ہونا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ عدالت اپنے حکم سے پیچھے ہٹ جائے، گارنٹی دینے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ میں سے کسی نے جا کر زمین کی پیمائش کی ہے، حکومت درخواست گزار اور دیگر فریقین نے مختلف پیمائش بتائی ہے، آخر پیمائش کرنے میں کیا حرج ہے، آپ فیتہ لیں اور پیمائش کر دیں، یہ کام ابھی تک کیوں نہیں ہوا، آخر مشکل کیا ہے۔
اس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ حدود پتا ہونی چاہیے تاکہ کل کو تجاوزات کا مسئلہ نہ اُٹھ سکے، اس حوالے سے مشترکہ سروے کروایا جائے تاکہ دوسری پارٹی اعتراض نہ کرے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابھی تک پیمائش کروائی کیوں نہیں گئی، آخر مسئلہ کیا تھا، اس پر تو فیصلہ بھی موجود ہے پھر بھی پیمائش کیوں نہ ہوئی۔
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے ریکارڈ کے مطابق زمین کی پیمائش بتائی تھی،
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ریکارڈ اتنا ہی اچھا ہوتا تو پھر کیا ہی بات تھی، آپ نے سوچا ہو گا کہ اب سرکار جائے اور زمین کی پیمائش کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ کیا عدالت خود اب اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے بیٹھ جائے؟ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہائی کورٹ کراتی ہے، کیا عدالت آئین سے ہٹ کر کوئی حکم دے سکتی ہے؟۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بینچ قرار دے چکا ہے کہ عدالت خود بھی فیصلے پر عملدرآمد کروا سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت عملدرآمد بینچ نہیں بنا سکتی، توہین عدالت کا نوٹس کر سکتی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ جس فیصلے پر عملدرآمد کا کہا جا رہا وہ آئین کے خلاف ہے، کراچی لا اینڈ آرڈر کیس میں عملدرآمد بینچ بنا کر بحریہ کا مقدمہ شروع کر دیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا تین رکنی بینچ کے سامنے یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا؟ جس پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہہلے یہ نکتہ نہیں اٹھایا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں عدالت ماضی میں مس کنڈکٹ کی مرتکب ہوئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کے مس کنڈکٹ کی بات نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت آئین سے ہٹ کر کوئی حکم دے تو مس کنڈکٹ ہی ہو گا۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے دوران سماعت یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس کا حوالہ دیا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس بحریہ ٹاؤن کے خلاف جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی زمین کا مالک نہیں ہے۔
وکیل سلمان بٹ نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ بحریہ ٹاؤن زمین کا مالک ہو گا، قانون پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی کیوں ہو رہے ہیں، یہ آپ کا ذاتی کیس تو نہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جذباتی نہیں ہو رہا بلکہ قانون کی بات کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم 2019 کا تھا اور اس کے خلاف بحریہ ٹاؤن نے درخوست 2021 میں دائر کی۔
وکیل نے کہا کہ درخواست 14 دسمبر 2019 کو دائر کی تھی، درخواست میں پوری 16ہزار 896 ایکڑ زمین کی منتقلی یقینی بنانے کی استدعا کی گئی تھی، بحریہ ٹاؤن کی درخواست پر ابھی تک صرف نوٹس ہوا ہے، کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف درخواست پھینکنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی، آپ جیسے سینئر وکلا بھی مقدمہ مقرر نہ کروا سکیں تو یقین نہیں آتا۔
عدالت نے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کتنی ہے اور بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بھی کہا کہ وہ شواہد کے ساتھ رپورٹ پیش کریں۔
عدالت نے سندھ حکومت اور ایم ڈی اے کو زمین کا سروے کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا نمائندہ بھی سروے ٹیم کے ہمراہ ہو گا۔
عدالت نے کہا کہ سروے میں سرکاری زمین پر بحریہ ٹاؤن کے قبضے کے الزمات کا بھی جائزہ لیا جائے اور محمود اختر نقوی کو بھی سروے ٹیم کا حصہ بنا دیا۔
عدالت نے سروے رپورٹ 23 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے 19کروڑ پاؤنڈ اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق درخواستیں 23 نومبر کو مقرر کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو ڈھائی سال کے طویل عرصے کے بعد بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تھی۔
اس سے قبل 21 مئی 2021 کو ہونے والی سماعت میں ہوئی تھی جہاں بینچ کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعیمر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے یہ معلومات پیش کی گئیں جس کو ملیر (سندھ) میں بحریہ ٹاؤن ڈیولپرز کی زمین کے حصول کے لیے ادائیگی کا شیڈول کے ساتھ منجمد کردیا گیا تھا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو ڈیولپرز کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی لیکن چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کی پیش کش قبول کی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو زمین کی منظوری، نجی لینڈ ڈیولپرز (بحریہ ٹاؤن) کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور حکومت سندھ کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا جس کا کوئی قانونی وجود نہیں تھا۔
فیصلے میں اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا۔
اس سے قبل 16 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق معاشی کساد بازاری کی وجہ سے 2.5 ارب روپے کی ماہانہ قسط کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو 3 سال کی چھوٹ دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کراچی نے کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ سے ادائیگی کا منصوبہ منجمد کرنے کی درخواست کی تھی اور استدعا کی گئی تھی کہ 2.5 ارب روپے کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی 7 ستمبر 2020 سے ستمبر 2023 تک تین برسوں تک مؤخر کردی جائے۔
اسی طرح 20 اکتوبر 2020 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے جمع کرائے گئے فنڈز جاری کرنے کے لیے اعلیٰ کمیشن تشکیل دیا تھا۔