طورخم بارڈر کی قبل از وقت بندش، سیکڑوں افغان مہاجرین کئی گھنٹے کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور
افغان حکام کی جانب سے اتوار کی شام کو طورخم بارڈر کی قبل از وقت بندش کے سبب خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں غیرقانونی تارکین وطن کو کئی گھنٹوں تک کھلے آسمان تلے رہنا پڑا، جس کے سبب پاکستانی حکام کو ان خاندانوں کو بارڈر کراسنگ پر چھوڑنے کے بجائے آدھی رات ہونے سے قبل پشاور منتقل کرنے کا خطرہ مول لینا پڑا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے بتایا کہ غیرقانونی تارکین وطن کی افغانستان واپسی کے لیے معمول کے مطابق کارروائی کی جا رہی تھی کہ افغان حکام نے مقررہ وقت سے چند گھنٹے قبل شام 7 بجے طورخم بارڈر کراسنگ بند کر دیا، جس کے سبب 284 افراد وہیں پھنس گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے منصوبے کے مطابق کارروائی سرانجام دے رہے تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ دروازے رات 9 بجے بند ہو جائیں گے۔
غیر قانونی تارکین وطن کی وطن واپسی کے عمل میں شامل ایک عہدیدار نے بتایا کہ اتوار کو جب افغان حکام نے گیٹ بند کر دیا اور شام 7 بجے کے قریب سرحد پار نقل و حرکت روک دی تو تقریباً 892 خاندان واپس لوٹ گئے تھے۔
وطن واپسی کے لیے درکار کارروائی مکمل کرنے والے 284 افراد بارڈر پار کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ طورخم بارڈر پر نقل و حرکت روک دی گئی، انہیں تقریباً 3 گھنٹے تک کھلے آسمان تلے بےیارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔
تاہم ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ہم خواتین اور بچوں سمیت 284 افراد کو بارڈر پر نہیں چھوڑ سکتے تھے لیکن ہم سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان خاندانوں کو لنڈی کوتل کے ہولڈنگ ایریا میں رکھنے کا خطرہ بھی نہیں مول سکتے تھے، بالآخر انہیں اندھیرے میں پشاور کے ہولڈنگ ایریا میں منتقل کر دیا گیا۔
مگر اس واقعہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کے لیے آپریشن پیر (کل) سے شام 4 بجے بند کر دیا جائے گا کیونکہ حکام مستقبل میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہمارے پاس شام 4 بجے کے بعد کوئی تارکین وطن ہوگا جو رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانا چاہے گا تو ہم اسے پشاور کے ہولڈنگ ایریا میں منتقل کر دیں گے اور اگلی صبح واپس بارڈر کراسنگ لے آئیں گے، تارکین وطن کو بارڈر کراسنگ سے رات گئے پشاور منتقل کرنے کا مزید خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ غیرقانونی تارکین وطن کو دی گئی ڈیڈلائن کو 6 روز گزر جانے کے بعد پیر کو 2 ہزار 883 مرد، 2 ہزار 325 خواتین اور 4 ہزار 89 بچوں سمیت 9 ہزار 297 افراد نے طورخم بارڈر عبور کیا۔
حکام نے مزید کہا کہ ان تازہ ترین اعداد و شمار کے اضافے کے ساتھ 17 ستمبر سے اب تک کُل ایک لاکھ 84 ہزار 174 غیر قانونی افغان تارکین وطن افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں 51 ہزار 852 مرد، 39 ہزار 556 خواتین اور 92 ہزار 766 بچے شامل ہیں۔
علاوہ ازیں حکام نے بتایا کہ 7 مرد، 6 خواتین اور 17 بچوں سمیت مزید 30 افراد کو جنوبی وزیرستان کے ضلع انگور اڈہ میں پاک افغان بارڈر کراسنگ کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔
چمن میں احتجاج
دریں اثنا تاجر اتحاد اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف چمن بارڈر کے قریب اپنا احتجاج جاری رکھا کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو صرف پاسپورٹ اور ویزے کی موجودگی کی صورت میں بارڈر پار کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاسپورٹ اور ویزوں کی بجائے درست کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے سرحد عبور کرنے کے حوالے سے حکومت کو کوئٹہ اور قندھار کے عوام کے ساتھ کیے گئے اپنے پچھلے وعدے پر قائم رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کچھ قبائلی زمینیں افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں، جس سے پاسپورٹ کی شرائط کا نفاذ ناقابل عمل ہوجاتا ہے، مطالبات تسلیم نہ کیے جانے تک احتجاج نہ صرف چمن بلکہ دیگر حصوں میں بھی جاری رہے گا۔
سرحدی تجارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بعض اشیا پر پابندی پر سوال اٹھایا جنہیں ایئرپورٹ کے ذریعے لے جانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ڈیورنڈ لائن کراسنگ پوائنٹس پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کراسنگ پوائنٹس پر کسٹم ہاؤس قائم کرے اور اطمینان سے چیک اپ کرے لیکن ایک بار کلیئر ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہر چند کلومیٹر کے بعد بار بار سامان کی جانچ نہیں کی جانی چاہیے۔