خدشات کے باوجود عالمی بینک کا موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کیلئے فنڈ جمع کرنے کا عزم
امریکا اور کچھ دیگر ممالک کی طرف سے تحفظات کے باوجود بھی موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے قائم فنڈ کی معاونت کے لیے کچھ ممالک نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال مصر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات میں ’لاس اینڈ ڈیمیج‘ فنڈ بنانے کے معاہدے کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر سراہا گیا تھا جسے امیر ممالک کی جانب سے کئی برسوں تک مزاحمت کا سامنا رہا تھا۔
تاہم گزشتہ 11 ماہ میں ان ممالک کی حکومتوں کے درمیان اس فنڈ کی تفصیلات پر اتفاق رائے قائم ہونے میں کئی پیچیدگیاں آڑے آئیں کہ وہ رقوم کون ادا کرے گا اور فنڈ کو کہاں رکھا جائے گا۔
فنڈ کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے رواں ہفتے ابوظبی میں پانچویں مرتبہ اجلاس منعقد کیا تاکہ ان سفارشات کو حتمی شکل دی جا سکے جو حکومتوں کو اس وقت پیش کی جائیں گی جب وہ دبئی میں سالانہ موسمیاتی سربراہی اجلاس منعقد کریں گی جس کا مقصد 2024 تک فنڈ اکٹھا کرنا ہے۔
جغرافیائی طور پر متنوع ممالک کے گروپ کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی نے ورلڈ بینک کو فنڈ کے ٹرسٹی اور میزبان کے طور پر کام کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ٹیم ابھی سالانہ موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دے گی۔
ترقی پذیر ممالک کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک میں ایک فنڈ کی ہاؤسنگ عطیہ دہندگان کو فنڈ پر زیادہ اثر و رسوخ فراہم کرے گا، تمام ممالک کو بورڈ میں شامل کرنے کے لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ورلڈ بینک 4 سال کے لیے عبوری ٹرسٹی کے طور پر کام کرے گا۔
جرمنی کے خصوصی سفیر برائے موسمیاتی امور جینیفر مورگن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کہا کہ جرمنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہے، ہم نئے فنڈ میں حصہ ڈالنے اور فنانسنگ کے ساختی ذرائع کے اختیارات کا جائزہ لینے کے لیے فعال طور پر کام کر رہے ہیں۔
غیر منافع بخش کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل میں عالمی سیاسی حکمت عملی کے سربراہ ہرجیت سنگھ نے کہا کہ یہ موسمیاتی انصاف کے لیے تاریک دن ہے کیونکہ امیر ممالک کمزور ممالک سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امیر ممالک نے نہ صرف عالمی بینک کو ’لاس اینڈ ڈیمیج‘ فنڈ کے میزبان کے طور پر قبول کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مجبور کیا بلکہ ان کمیونٹیز اور ممالک کو مالی امداد فراہم کرنے کے اپنے فرض سے بھی گریز کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا جائے کہ وہ فنڈ کو امداد فراہم کرتے رہیں لیکن وہ یہ حل فراہم کرنے میں ناکام رہے کہ آیا امیر ممالک مالیاتی ذمہ داریوں میں شامل ہوں گے۔