راجا پرویز اشرف کی فیض آباد دھرنے، ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی تجویز
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے فیض آباد دھرنے اور ماضی کو بھلاکر آگے بڑھنے کی تجویز دے دی۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پیپلز پارٹی راجا پرویز اشرف نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ اور نئے سوشل کنٹریکٹ کی تجویز بھی دے دی۔
راجا پرویز اشرف سے سوال کیا گیا کہ کیا فیض آباد دھرنے کے کرداروں کو بلا کر حقائق سامنے لانے چاہیے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ہم نے نتیجہ دیکھنا ہے، ہم 75، 76 سال گزرنے کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہم نے ماضی میں ہی چلنا ہے یا مستقبل بھی کوئی چیز ہے جس میں قدم رکھنا ہے؟ مشورہ کریں، بٹھائیں سب کو، کوئی ڈائیلاگ اوپن تو کرو۔
پروگرام کے دوران راجا پرویز اشرف سے سوال کیا گیا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باوجوہ اور جنرل (ر) فیض کو بلانے اور حقائق سامنے لانے کا مطالبہ درست ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ بس یہ باتیں کرنے والے روتے پیٹتے رہیں، ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکیں گے، یہ وطیرہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہر 2، 3 سال کے بعد آپ گزرے وقت کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ آگے دیکھنے والی قومیں ہوتی ہیں، وقت پر کوئی بات نہیں کرتا، یہ بزدلی کی نشانی ہے، زندہ قوم جس وقت غلط کام ہو رہا ہوتا ہے اسی وقت کہتی ہے کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 برس گزرنے کے بعد سارے اٹھ جاتے ہیں، قوم اس سے کنفیوز ہو رہی ہے اور ہم نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے تجویز دی کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ اور ایک نیا سوشل کنٹریکٹ ہونا چاہیے، اگر کوئی بات ہے تو ہمیں آپس میں بیٹھ کر بات کرنی ہے، ہمارے دشمن تو اب یہ سب دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ اِن کو چھوڑ دو، یہ خود ہی اپنے آپ کو مار لیں گے۔
’انتخابات کی تاریخ کا معاملہ سیاسی جماعتوں کو طے کرنا چاہیے تھا‘
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ سپریم کورٹ کے بجائے سیاسی جماعتوں کو طے کرنا چاہیے تھا، انتخابات سے متعلق معاملات پارلیمانی کام ہے، پارلیمان کا وجود انتخابات سے براہ راست جڑا ہوا ہے، بس یہ ہماری بدقسمتی ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کا عہدہ سب سے بڑا آئینی عہدہ ہے، کیا مجبوری ہوئی کہ عارف علوی کے حوالے سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ صدر مملکت کے بجائے تحریک انصاف کی نمائندگی زیادہ کر رہے ہیں، یہ درست بات نہیں ہے، صدر مملکت کو اس بات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرتے ہوئے اگر آپ دوسرا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، اِس پر اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا عارف علوی نے آئین کی خلاف ورزی کی؟ جواب میں راجا پرویز اشرف نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے تو پھر مجھے تو یہ تسلیم کرنا ہے۔
واضح رہے کہ راجا پرویز اشرف کا تفصیلی انٹرویو آج شام 7 بجے ’ڈان نیوز‘ پر نشر ہوگا۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کئی برس قبل اپنے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اپنی کمانڈ کے اہلکاروں کو سزا دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جہاں 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔
سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔
بعد ازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ رواں برس 22 ستمبر کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی تھیں۔
رواں ماہ یکم نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔