آج بھی بولی وڈ میں کام کرنے کیلئے تیار ہوں، جاوید شیخ
نامور فلم اسٹار اور ٹی وی اداکار جاوید شیخ کا کہنا ہے کہ اگر انہیں آج بھی بھارت سے کام کرنے کی آفر ہوئی تو وہ اس کے لیے تیار ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت کی فلم انڈسٹری چاہتی ہے کہ وہ پاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام کریں۔
حال ہی میں جاوید شیخ نے یوٹیوب کے پوڈکاسٹ ایف ایچ ایم میں شرکت کی جہاں انہوں نے اپنے کریئر، بھارتی فلموں، پاکستانی ڈراموں اور عورت مارچ سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔
پوڈکاسٹ کے دوران جاوید شیخ نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے کامیاب انسان نہیں تھے، انہوں نے صفر سے لےکر اپنا کریئر شروع کیا، کریئر کے ابتدا میں پیسے نہیں تھے، دو کمروں میں 8 بہن بھائی ایک ساتھ رہتے تھے۔
جاوید شیخ کئی انٹرویوز میں اپنے کریئر سے متعلق گفتگو کرچکے ہیں اور ساتھ ہی بھارت میں کام کرنے سے متعلق کئی باتیں آئے روز شئیر کرتے رہتے ہیں۔
اس پوڈکاسٹ میں بھی انہوں نے شاہ رخ خان سمیت دیگر اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کے تجربے سے متعلق گفتگو کی، ان کا کہنا تھا کہ انہیں اکشے کمار، اجے دیوگن، شاہد کپور اور شاہ رخ خان جیسے اداکاروں کی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور انہیں بہت عزت دی گئی۔
پوڈ کاسٹ کے دوران ایک سوال کے جواب میں جاوید شیخ نے کہا کہ ’اگر آج بھی انہیں بھارت سے فلم آفر ہوئی تو وہ ضرور جائیں گے۔‘
اداکار نے کہا کہ ’جی بالکل، میں تو آج بھی وہاں کام کرنا چاہتا ہوں، بھارت کی پوری انڈسٹری چاہتی ہے کہ وہ پاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام کریں، آج بھی بھارت کے کچھ لوگ مجھے فلم میں کرنے کی آفر کر رہے ہیں، لیکن فلم کی شوٹنگ بھارت کے بجائے کسی اور ملک میں ہوگی۔‘
جاوید شیخ نے کہا کہ ’بھارتی انڈسٹری چاہتی ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ کو وہ اپنی اسکرین پر دکھائیں، پاکستانی ڈراما بھارت میں بے حد مقبول ہے۔‘
بشریٰ انصاری کے پاکستانی اداکاراؤں کی بھارت میں عزت نہ ہونے سے متعلق بیان پر جاوید شیخ نے کہا کہ ’اپنی عزت آپ خود کرواتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ بھارت میں فلم کی شوٹنگ کرتے تھے تو ان کے پاس بولی وڈ کے تقریباً تمام ٹاپ اداکاروں کے نمبرز تھے لیکن اپنی شوٹنگ کے علاوہ انہوں نے کبھی کسی اداکار سے فون کال پر بات نہیں کی۔’
جاوید شیخ کے مطابق شوٹنگ کے دوران تمام لوگوں کی نظریں ان کے برتاؤ اور سلوک پر تھی۔
اداکار نے کہا کہ ’شوٹنگ کے دوران میرے برتاؤ سے میرے ملک کو پَرکھا جاتا ہے، لہٰذا ایسا کام ہی نہیں کرنا جس کی وجہ سے آپ کی عزت متاثر ہو۔
پوڈکاسٹ کے دوران ’عورت مارچ‘ اور ’میرا جسم، میری مرضی‘ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جاوید شیخ نے کہا کہ وہ اس نعرے کے خلاف ہیں۔
جاوید شیخ نے کہا کہ ’میں عورتوں کی بہت عزت کرتا ہوں، عورت کو عورت بن کر رہنا چاہیے، اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو لڑکیوں کے لیے یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہے کہ یہ میری مرضی ہے کہ میں جو چاہوں کروں۔‘
اداکار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ اسلامی ملک ہے، آپ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہیں۔‘
جاوید شیخ کی بات کاٹتے ہوئے پوڈ کاسٹ کے میزبان فیصل نے نشاندہی کی کہ ’فیمینسٹ کے مطابق اس نعرے کا مقصد کوئی شخص عورت کی مرضی کے بغیر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔‘
جس پر جاوید شیخ نے کہا کہ ’میں اس سے متفق نہیں ہوں، یہ میری رائے ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم ماڈرن زمانے میں رہتے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ عورت کی اپنی حیا ہے، میری رائے میں عورت جتنی زیادہ ڈھکی ہوئی ہوگی، وہ اتنی خوبصورت ہے۔‘
جس پر میزبان نے کہا کہ جینز اور ٹی شرٹ پہننا تو آج کل عام ہوگیا ہے اور کلچر کا حصہ بن گیا ہے جس پر جاوید شیخ نے کہا کہ کلچر بن گیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن میری رائے اس سے مختلف ہے۔
یاد رہے کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ پہلی بار 2018 میں کراچی میں ہونے والی عورت مارچ کی ریلی کے دوران سامنے آیا تھا، کئی سالوں سے عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان اور فیمینسٹ گھریلو تشدد، تولیدی حقوق، صنفی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے ریلی اور احتجاج کرتے آئے ہیں، اس دوران ’میرا جسم میری مرضی‘ کو آج بھی متنازع نعرہ سمجھاتا ہے۔
اس سے قبل کئی اداکار اس نعرے پر اپنی اپنی رائے دیتے آئے ہیں، اداکارہ ژالے سرحدی نے ماضی میں اسی پوڈکاسٹ میں کہا تھا ’میرا جسم، میری مرضی میں کیا غلط ہے؟ لوگوں نے اسے غلط سمجھ لیا ہے، اس کا تعلق لباس سے نہیں ہے۔‘
ژالے سرحدی نے کہا تھا کہ ’میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ آپ میرے جسم کو میری مرضی کے خلاف چُھو بھی نہیں سکتے، آپ اپنی ماں، بہنوں اور بیویوں کو خودمختار ہونے دیں۔‘
اس کے علاوہ ماہرہ خان نے بھی ایک پوڈکاسٹ کے دوران کہا تھا کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کسی خاتون کو چھونا چاہ رہا ہے اور خاتون کو برا لگ رہا ہے تو وہ اس کے خلاف رپورٹ بھی کر اسکتی ہے لیکن اگر خاتون کو غلط نہیں لگ رہا تو کوئی بات نہیں۔
ماہرہ خان نے بتایا کہ ’عورت مارچ‘ کے حوالے سے غلط معلومات والی آوازوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔