مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد 90 روز میں انتخابات کی سوچ غیرآئینی ہے، اسحٰق ڈار
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری 2 اگست کو ہوئی، جس کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کی بات کرنا بھی غیرآئینی ہے۔
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جہاں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بحث کی گئی، جو گزشتہ روز سپریم کورٹ میں 90 روز کے اندر انتخابات کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران صدر مملکت سے مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن کو تاریخ طے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں الیکشن کمیشن اور صدرمملکت نے 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے پر اتفاق کیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن نے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
سینیٹ اجلاس میں قائد ایوان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے بڑی اہم باتیں ہمارے سامنے رکھی ہیں اور وہ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ 90 روز میں انتخابات ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کی باقی شقیں بھی سامنے رکھنی ہوں گی، 2 اگست کو مردم شماری کے نتائج کی منظوری ہوئی اس کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، جب ہم یہ سوچتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ 90روز میں انتخابات کروا دینے چاہیے تھے تو یہ بھی غیر آئینی سوچ ہے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ جب مردم شماری کے نتائج کی منظوری ہوجائے تو الیکشن کمیشن کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے، ہم بھی چاہتے تھے انتخابات 90 روز میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے لیے پہلے بجٹ میں مختص رقم 5 ارب روپے تھی لیکن الیکشن کمیشن کو 54 ارب درکار تھے، ہم نے طے کیا کہ 46 ارب دیے جائیں، پبجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے لیے اضافی 16 ارب درکار تھے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی نے قرارداد پاس کر دی تھی، جس میں میرے پاس کوئی موقع نہیں تھا، میں نے بجٹ میں یقینی بنایا کہ الیکشن کمیشن کا بجٹ بناؤں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف عدلیہ، پارلیمنٹ اور کابینہ تھی، حکومت خاتمے سے قبل بجٹ الیکشن کمیشن کو جاری کرنے کے سارے اقدامات کرکے گئے تھے، اگر آپ نے آئی ایم ایف کا پروگرام ڈی ریل کیا تو آپ پی ڈی ایم پر الزام نہیں لگا سکتے۔
سابق وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو اور ہم سری لنکا بنے یہ ملک کے اندر اور باہر دشمن چاہتے تھے لیکن حزب اختلاف اور حکومت مل کر پاکستان کے مفادت کا تحفظ کریں۔
انہوں نے کہا کہ چند قوتوں کا مقصد تھا پاکستان دیوالیہ ہو، اس وقت ہماری بقا کا سوال تھا معیشت ٹھیک کرنے نہیں تھا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ سابق حکومت کے رکن نے کہا تھا ہم بارودی سرنگ بچھا کر جا رہے ہیں، ایسی سوچ والے کو تو ملکی سیاست میں ہونا نہیں چاہیے، امید ہے سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے اور نوجوانوں کو ٹکٹ ملنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی تھی، ہمیں 2002، 2008 اور 2018 میں کون سی لیول پلئینگ فیلڈ ملی، ہم صرف 2013 میں جیتے، لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے، ہم آزادانہ، شفاف اور لیول پلیئنگ فیلڈ چاہتے ہیں اور ہمیں پھر نتائج بھی تسلیم کرلینے چاہئیں۔
قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ کل ایک اہم دن تھا، اتفاق رائے سے 8 فروری کی تاریخ طے پائی ہے، چیف جسٹس کے فیصلے کو سراہتا ہوں کہ یہ نہ صرف اچھا فیصلہ آیا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے اس کا فیصلہ ہونا ضروری ہے، آنے والے دنوں میں اس ابہام پر بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، شروع سے مؤقف رہا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز میں انتخابات ہونے چاہئیں۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت نے انتخابات کروانا مناسب نہیں سمجھا اور انتخابات کے لیے فنڈز دینے سے بھی انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت میں شامل 11 جماعتیں ناقص کارکردگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایسی حکومت جس نے 10 ارب روپے ناقص کارکرگی پر خرچ کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت نوجوانوں کو موقع دیں، انتخابات کی تاریخ تو خوش آئند ہے لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر نے کہا کہ انتخابات کی کریڈیبلٹی بھی اتنی ہی اہم ہوگی جتنی اس کی تاریخ ہے، ہماری سیاسی تاریخ حادثات سے بھری پڑی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں کورم کی نشاندہی کی گئی اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس پیر کو چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔