’ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟‘
فائنل ایئر کے طلبہ ہمارے لیکچر کے انتظار میں تھے لیکن لیکچر دینا ہمیں پسند نہیں تو ہم نے اپنے پسندیدہ انداز سے ٹیچنگ شروع کی۔
’28 سالہ ایک مریضہ اسپتال آتی ہے جوکہ 32 ہفتے کی حاملہ ہے۔ پچھلے تین دن سے اسے سر میں شدید درد ہے اور چکر بھی آ رہے ہیں۔ ڈیوٹی ڈاکٹر آپ ہیں، بتائیے آپ کیا کریں گے؟‘
لیجیے جناب، ہمارا یہ پوچھنا تھا کہ آنے لگے دھڑا دھڑ جواب میں چھپے سوالات۔
’سر درد پورے سر کا ہے یا آدھے سر کا؟‘
’کیا پہلے بھی ایسا درد ہوا؟‘
’خاندان میں ایسے سر درد کی ہسٹری موجود ہے کیا؟‘
’کیا دوا لی ہے اب تک؟‘
’سر کا ایم آر آئی کروایا کہ نہیں؟‘
’کیا جسم میں کوئی حصہ ایسا ہے جو نم ہوگیا ہو؟‘
’درد آنکھوں میں بھی ہے یا نہیں؟‘
’تین دن سے مسلسل؟ یعنی کوئی وقفہ نہیں؟‘
ہم سب سوالات کے نفی میں جواب دیتے رہے اور جب سب کی زنبیل میں سوال ختم ہوگئے تب ہم نے پوچھا کہ کیا سر درد کا حمل سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے؟ جس پر جواب آیا ’جی، مائیگرین تو عام ہے حمل کے دوران‘، اور اس سے ملی جلی آوازیں آئیں۔
’پھر؟‘ ہم نے پوچھا۔ سب خاموش رہے۔ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی جگہ میں ہوتی تو کیا کرتی؟ میں مریض کا بلڈپریشر چیک کرتی‘۔
’اوہ۔۔۔ یس۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔‘
’اب آپ پوچھیں کہ کتنا بلڈ پریشر تھا مریض کا؟‘ ہم نے کہا۔
’جی بتائیے‘۔
’170/100۔ اب بتائیے، کونسا ٹیسٹ کریں گے فوراً؟‘ ہم نے پوچھا۔
’پیشاب میں پروٹین نکل رہا ہے کہ نہیں؟‘ سب بیک زبان ہوکر بولے۔
یہ سن کر ہم مسکرا دیے کیونکہ اب وہ سب تشخیص کے قریب پہنچ چکے تھے۔
’اچھا چلو فرض کرو کہ پیشاب میں چربی تھری پلس ہے۔۔۔ اب کیا کرو گے؟‘
’بلڈ پریشر کی دوا دیں گے اور مزید ٹیسٹ کروائیں گے‘، جواب ملا۔
’اس سے پہلے ایک نہایت ضروری کام‘، ہم نے پھر امتحان لیا۔ سب چپ ہوکر سوچ میں پڑ گئے۔
’ارے بھئی، مریض کو اسپتال میں داخل نہیں کرو گے کیا؟‘ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’جی۔۔۔ جی۔۔۔‘، سب ہنس پڑے۔
’اچھا یہ تو آپ نے بتا دیا کہ بلڈ پریشر کی دوا دو گے اور مزید بلڈ ٹیسٹ بھیجو گے۔ فرض کرو کہ بلڈ ٹیسٹ کا نتیجہ نکل آیا ہے۔ خون میں پائے جانے والے پلیٹلیٹس کم ہیں۔۔۔ (جی وہی مشہور عالم پلیٹلیٹس جو نواز شریف کی پراسرار بیماری میں سامنے آئے تھے) اور جگر میں بننے والا ایک اینزائم زیادہ ہے، اب بتاؤ کیا کروگے؟‘
اشارے اس قدر واضح تھے کہ اب سب چیخ اٹھے۔۔۔ ’یہ ہیلپ سنڈروم ہے‘۔
’واہ واہ۔۔۔ کتنی جلدی تشخیص کرلی تم لوگوں نے‘، ہماری بات سن کر طلبہ ہنس پڑے۔
ایک شوخ نے مسکرا کر کہا، ’آپ باتوں میں لگا کر یہاں تک لے آئی ہیں‘۔
’چلو یونہی سہی۔۔۔ یہ میرا پڑھانے کا اسٹائل ہے مگر سمجھ تو آ گیا نا؟‘
’جی بالکل، بہت اچھی طرح۔۔۔‘ بیک وقت سب بولے۔
’اچھا اب بتاؤ، حمل 32 ہفتے کا ہے یعنی 8ویں مہینے کی ابتدا ہوئی ہے۔ بتاؤ کیا کرو گے؟‘
سب گہری سوچ میں ڈوب گئے کیونکہ ایک طرف ہیلپ سنڈروم تھا تو دوسری طرف ساڑھے سات ماہ کا بچہ۔۔۔ کیا کریں؟
’بلڈ بینک سے پلیٹلیٹس منگوائیں اور لگائیں‘، ایک آواز آئی۔
’اس سے کیا ہوگا؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’پلیٹلیٹس زیادہ ہو جائیں گے‘، جواب آیا۔
’مگر جو عمل جسم کے اندر ان پلیٹلیٹس کو تباہ کررہا ہے وہ تو موجود رہے گا۔ وہ نئے پلیٹلیٹس کو بھی تباہ کردے گا‘، ہم نے جواب دیا۔ ہمارا اعتراض درست تھا تو سب پھر سے سوچنے لگے۔
’ہم مریض کو داخل رکھیں گے اور بلڈ پریشر کم کرنے کی دوائیں دیں گے‘، ایک طرف سے آواز آئی۔
’کتنا عرصہ؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’ایک مہینہ اور۔۔۔‘ جواب آیا۔
’اس ایک مہینے میں ہیلپ سنڈروم کیا چپ کرکے بیٹھا رہے گا‘، ہم نے پوچھا۔
’اچھا یہ بتاؤ کہ جگر جو اینزائم زیادہ بنا رہا ہے، اس کا کیا کریں؟‘ ہم نے پوچھا۔
ہمارے اس سوال پر پھر خاموشی چھا گئی۔
’اور وہ جو گردوں سے تھری پلس پروٹین نکل رہا ہے۔۔۔ اس کا کیا کرنا ہے؟‘
خاموشی۔۔۔
’چلو یہ بتاؤ کہ اگر پلیٹلیٹس کم ہوں اور بلڈ پریشر زیادہ ہو تو کس بات کا خطرہ ہوتا ہے‘، ہم نے پوچھا۔
’برین ہیمرج کا۔۔۔‘ سب اونچی آواز میں بولے۔
’اب سوچو کہ ایک حاملہ عورت ہے جس کو ایسی بیماری ہوگئی ہے کہ برین ہیمرج کا خطرہ ہے تو ایسے میں کیا کرو گے؟‘ ہم نے بات آسان کرکے پوچھا۔
’ڈلیوری کروائیں گے‘، سب چیخے۔
’شاباش، ہیلپ سنڈروم میں ہمیشہ ماں کی زندگی کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اگر ماں زندہ رہے گی تو بچے بہت۔۔۔ لیکن اگر ماں ہی چل بسے تو ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا‘، ہم نے کچھ اداس ہوکر کہا۔
’اگلا سوال یہ ہے کہ بچہ کیسے ڈیلیور کروانا ہے؟ ویجائنل یا سیزیرین؟‘
کچھ لوگوں نے ویجائنل کے حق میں ووٹ ڈالا اور کچھ نے سیزیرین کے لیے اور اب سب ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔
’دیکھو اس میں وقت قیمتی ہے۔ ماں کے جسم کے اندر خطرناک بیماری ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بچے کو اس کے جسم سے نکال لیا جائے۔ بچے کے نکلتے ہی ہیلپ سنڈروم اپنے آپ ہی ختم ہونا شروع ہوجائے گا اور ماں صحت یابی کی طرف گامزن ہوجائے گی۔ سو کرنا یہ ہے کہ حساب لگاؤ جلد از جلد کیسے بچہ ڈیلیور کرواسکتے ہو؟ اگر درد نہیں تو مصنوعی درد شروع کروانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے۔ سو ماں کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے‘۔
’کیا بچہ زندہ رہے گا؟’ہماری بات سن کر ایک طالبہ نے سوال کیا۔
’32 ہفتے بعد بچے کا وزن پونے دو کلو تک ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک کلو بلکہ پونے کلو کا بچہ بھی بچایا جاتا ہے۔ البتہ ترقی پذیر ممالک کی کہانی مختلف ہے‘، ہم نے کہا۔
قارئین دیکھا آپ نے کہ ہم نے بات سر درد اور حمل سے شروع کی لیکن زیادہ تر طلبہ نے حمل کی طرف دھیان دینے کی بجائے سر درد کی وجوہات ڈھونڈنی شروع کردیں جبکہ ہمیں اس مسئلے کا سراغ لگانا تھا جس میں سر درد کے ساتھ حمل ہو اور پھر بات بلڈ پریشر کی طرف چلے۔
عنوان سوچتے ہوئے ہمیں وہ سب ڈرامے یاد آگئے جن میں پوچھا جاتا ہے ماں بچائیں یا بچہ؟ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ نہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی رشتے داروں کی طرف سے ملنے والی ایسی کسی ہدایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹری کی سائنس کے مطابق ماں کی زندگی کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے، بچے کو نہیں۔
مگر یہ وہ کیا جانیں جو سائنس کو ہی نہیں مانتے۔ سوچیے کہ ان کے گھر کی عورت کیا کسی اسپتال تک پہنچتی ہوگی جن کا خیال ہی یہ ہے کہ زچگی سے گزرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
ہیلپ سنڈروم کے بارے میں باقی آئندہ۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔