نقطہ نظر

کلاسیکی رقص: پاکستان میں تیزی سے معدوم ہوتا آرٹ

پاکستان میں کئی دہائیوں سے کلاسیکی رقص، پرفارمنس آرٹ فارم کے ساتھ ساتھ تھیٹر ڈرامے کی داستانوں کی صورت میں موجود رہا ہے۔

سسی اپنی محبت کی حفاظت اور اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی مشکلات برداشت کرنے کو تیار ہے۔ وہ اپنے محبوب کی تلاش میں ایک ویران جنگل میں بھٹک رہی ہے۔ اس کے حلق میں کانٹے چُبھ رہے ہیں اور وہ درختوں کے درمیان نم آنکھوں کے ساتھ گھوم رہی ہے۔

لیکن تمام مشکلات کے باوجود وہ ہمت نہیں ہار رہی۔ اسی طرح ایک اور دنیا ہے جہاں سسی کی طرح محبت کے مصائب جھیلتی انارکلی بھی ہے۔ سسی کی طرح انارکلی نے بھی محبت کی خاطر اپنی زندگی کی تمام خوشیوں کو قربان کردیا ہے۔

یہ پاکستان میں 1996ء کرکٹ ورلڈکپ کے لیے منعقدہ ایک تقریب کے دوران نگہت چوہدری کی جانب سے پیش کی گئی کہانیوں کے مناظر تھے۔ نگہت چوہدری نے اس پرفارمنس کے لیے 35 مختلف جنوبی ایشیائی ثقافتی کہانیوں کی کوریوگرافی کی جن میں تاریخی واقعات اور لوک داستانیں بھی شامل ہیں۔

اب نگہت چوہدری ہفتے کے 5 روز دوپہر کو اپنے ڈانس سینٹر میں کتھک سکھاتی ہیں۔ وہ طلبہ جو ایک وقت میں ایک دھن کو سمجھ نہیں پاتے وہ انتہائی توجہ سے اپنی استانی کا رقص دیکھتے ہیں۔ اپنے ڈانس سینٹر میں پرفارمنگ آرٹ سیکھنے آنے والی نوجوان خواتین کے ہجوم (جوکہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے) کے درمیان نگہت چوہدری ماضی کی خواتین رقاصوں کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’پاکستان میں کلاسیکی رقص کو بھارت سے جڑے ماضی کی وجہ سے زیادہ لوگوں کی قبولیت حاصل نہیں کیونکہ یہاں لوگ بھارت سے جڑی چیزوں کو مسترد کردیتے ہیں۔ کلاسیکی رقص کی شکلیں جیسے کتھک جنوبی ایشیا میں کسی بھی سرحد کے قیام سے بہت پہلے ہی موجود ہیں۔

کلاسیکی رقص کے حوالے سے معاشرے کی غلط فہمیاں

جنوبی ایشیائی ثقافت میں کلاسیکی رقص کی بھرپور تاریخ موجود ہے۔ آج تک کلاسیکی رقص کو نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ پوری دنیا میں کہانیاں سنانے اور جسمانی حرکات کے ذریعے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار خیال کرنے کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کئی دہائیوں سے کلاسیکی رقص، پرفارمنس آرٹ فارم کے ساتھ ساتھ تھیٹر ڈرامے کی داستانوں کی صورت میں موجود رہا ہے۔ تاہم اس آرٹ فارم کو بہت زیادہ سماجی مخالفت، غلط تشریح اور ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر اس وقت جب خواتین کی طرف سے کتھک کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ رقص تھیٹر، ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں کا حصہ بنا ہے لیکن جو خواتین یہ رقص کرتی ہیں انہیں معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

شیما کرمانی بھی انہیں خواتین رقاصوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1980ء کی دہائی میں شدید تنقید کا سامنا کیا تھا۔ وہ ضیاالحق کے زمانے کے اس کلچر کو یاد کرتی ہیں جب خواتین کو بنیادی حقوق اور انہیں آزادی دینے سے بھی انکار کیا جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں کلاسیکی رقص کرنے والی خواتین کے لیے اخلاقی دائرہ کار ہے۔ وہ خواتین کو آزادانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا‘۔

شیما کرمانی کہتی ہیں کہ ’اگرچہ یہ معاشرہ خواتین کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ مردوں کی طرف سے پیش کیے جانے والا کلاسیکی رقص بھی ہمارے معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔ وہ صرف پرفارم کررہے ہیں لیکن ان مردوں کو عورتوں کے مماثل قرار دے کر برا بھلا کہا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں کلاسیکی رقص کے حوالے سے غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ہماری ثقافت اور مذہبی روایات کے منافی ہے جبکہ حقیقت میں یہ تعصب ہے کیونکہ ہمارے یہاں شادیوں میں رقص کیا جاتا ہے لیکن کلاسیکی رقص کے معاملے میں ہم اپنی حدود متعین کرتے ہیں’۔

بالوں کو چوٹی میں باندھے، انارکلی کے لباس میں ملبوس اور پیروں میں گھنگھرو باندھے رقاصہ فرح یاسمین شیخ اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جو خواتین کلاسیکی رقص کرتی ہیں وہ ’اچھی نہیں ہیں‘۔ فرح یاسمین شیخ جو مغل دور کے فیشن سے متاثر ہیں، ان کے مطابق ان خواتین نے کلاسیکی رقص کے ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ’بہت کچھ‘ کیا ہے۔

کلاسیکی رقص کے حوالے سے اسی طرح کی غلط فہمیوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں کلاسیکی رقص سکھانے والے اداروں کو سپورٹ نہیں کیا جاتا۔ نگہت چوہدری کے مطابق وہ اور ان کی طرح کلاسیکی رقص کرنے والے دیگر لوگ خود اپنے آپ میں ایک ادارہ ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’انہیں کسی بھی طرح کی بیرونی مدد حاصل نہیں اور نہ ہی حکومتی اداروں کو کوئی پروا ہے، ہم میں سے زیادہ تر اپنی مدد آپ کے تحت نجی سطح پر کلاسیکی رقص سکھاتے ہیں‘۔

رقص سکھانے پر لگنے والی محنت کے حوالے سے نگہت چوہدری بتاتی ہیں کہ ’یہ کمرشل آرٹ نہیں ہے جبکہ ہمارے ملک میں صرف اسی چیز کو اہمیت دی جاتی ہے جوکہ کمرشل مواد ہو‘۔

ورثے کی حفاظت

فرح شیخ جو لاہور مین اپنے اسٹوڈیو میں کلاسیکی رقص سکھاتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم پاکستان میں کلاسیکی رقص کے اس ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اسکولز اور یونیورسٹیز کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اسے باقاعدہ نصاب کا حصہ بنا کر ہی معدوم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے‘۔

شیما کرمانی نے پرفارمنگ آرٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ سیاسی طور پر آرٹ کے بغیر پنپ نہیں سکتا۔ حکومت کھیلوں کے ایونٹس پر اخراجات کرتی ہیں لیکن کلاسیکی رقص سمیت دیگر پرفارمنگ آرٹس پر کوئی خرچہ نہیں کیا جاتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان پرفارمرز کی بڑی تعداد شہروں میں واقع مہنگی یونیورسٹیز، ڈانس اکیڈمیز یا تربیتی مراکز تک رسائی حاصل نہیں کرپاتی جس کی وجہ سے کلاسیکی رقص ایک ایسا آرٹ بن کر رہ گیا ہے جسے صرف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی سیکھ سکتی ہیں‘۔

شیما کرمانی بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق اور محنت کش طبقے کی مشکلات کی بات کرتی ہیں جس کا خواتین سامنا کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر یہ خواتین پرفارم کرنا بھی چاہیں تب بھی انہیں اس شعبے میں پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فرح یاسمین شیخ کا کہنا ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ امریکا سے آنے کی وجہ سے انہیں کلاسیکی رقاصہ بننے میں آسانی ہوئی لیکن یہاں بہت سی خواتین ہیں جو یہ استطاعت نہیں رکھتیں کہ وہ خود تربیت حاصل کرسکیں اور جو اس پرفارمنگ آرٹ سے وابستہ ہیں، ان کے لیے یہ صرف ایک مشغلہ ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے اور ثقافتی اور خصوصی فنون سکھانے والے اداروں کی بڑی نااہلی ہے۔ جب کوئی کلاسیکی رقص کررہا ہو تو اسے بہت زیادہ لگن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک کے سنگین معاشی بحران کے تناظر میں خواتین اسے اپنے مستقل کریئر کے طور پر نہیں اپنا سکتیں‘۔

کلاسیکی رقص کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اسے سیکھیں اور اس ورثے کو محفوظ بنائیں۔ نگہت چوہدری جیسے فنکار معاشرے کے رویوں سے مایوس ہیں جہاں فنکاروں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

نگہت چوہدری کہتی ہیں کہ ’میرے بہت سے طلبہ کلاسیکی رقص کو بطور کریئر نہیں چنتے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت جو ہم واحد چیز کرسکتے ہیں وہ اس پرفارم کیے گئے آرٹ کی دستاویزات کو محفوظ کرنا ہے۔ اگر اسے ادارہ جاتی بنایا جاتا ہے تو شاید موجودہ حالات بدل جائیں‘۔


کنزا شکیل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔