سینٹ پیٹرزبرگ: شام کا بحران نئی حدوں کو چھورہا ہے اور امریکی صدر براک اوبامہ اور روسی ہم منصب ولادمیر پیوٹن کے درمیان تلخ فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں کیونکہ امریکہ شام پر فوجی حملے کیلئے پر تول رہا ہے لیکن روس اس کا مخالف ہے اور واشنگٹن اب تک روس کی جانب سے حملے کی تائید حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
شام کے معاملے پر روس اور امریکہ اختلافات جی 20 کی اہم کانفرنس کے دوران بھی سامنے آئے جب پیوٹن نے میزبان کی حیثیت سے صدر اوبامہ کو اس کانفرنس میں خوش آمدید کہا ۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے شام پر روسی پالیسی کے خلاف شدید تنقید کی ہے۔
جی ٹوئنٹی کانفرنس کے ساتھ ساتھ ذیلی طور پر دونوں لیڈروں نے آدھ گھنٹے کی ملاقات کی لیکن شام پر ایک دوسرے کا ذہن نہ بدل سکے۔
' ہم نے بیٹھ کر بات کی ہے، جو بامعنی اور تعمیری تھی۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنا مؤقف پیش کیا ہے،' پیوٹن نے رپورٹرزسے کہا۔ خارجہ پالیسی پر ان کے معاون یوری یوشاکوف نے بھی تصدیق کی ہے کہ گفتگو کے بعد بھی دونوں کے درمیان ' اختلافات' موجود ہیں۔
واضح رہے کہ شام کی جانب سےگزشتہ ماہ مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے بعد امریکہ شام پر محدود حملے کیلئے عالمی سطح پر سفارتکاری کررہا ہے۔ روس نہ صرف اس پر شدید تنقید کرتا رہا ہے بلکہ اس کا مؤقف ہے اقوامِ متحدہ کی اجازت کےبغیر یہ حملہ ایک جارحانہ عمل ہوگا۔
ہفتے کو روسی وزارتِ خارجہ نے امریکہ کو شام پر کارروائی کیخلاف وارننگ دی ہے۔
امریکہ بار بار یہ عندیہ دے چکا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر بھی شام کیخلاف کارروائی کرسکتا ہے۔
دوسری جانب صدر اوبامہ نے شام پر حملے کیخلاف فرانس کی حمایت پر شکریہ ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس نے شام پر حملے کیلئے عالمی حمایت پر زور دیا ہے۔
' ہم بار بار دیکھ رہے ہیں کہ روس، اسد کی حکومت کو روکنے میں اور اس کےاحتساب میں آڑے آرہا ہے،' بین رہوڈس نےکہا کہ جو صدر اوبامہ کے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ہیں۔
' ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایسے نہ ختم ہونے والے سیشن نہیں چاہتے جو کہیں نہ جاتے ہو،' انہوں نےکہا۔
روس اور چین سلامتی کونسل میں تین مرتبہ شام پر کسی ممکنہ دباؤ ڈالنے کی قراداد پر اپنا ویٹو پاور استعمال کرچکے ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ' لیڈروں کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔'
گفتگو کے درمیان ایک اعلیٰ ذریعے نے یہ بھی کہا کہ سربراہانِ مملکت کے عشائیے میں شام کے معاملے پر گرمجوشی نہ تھی اور میزبان ہونے کی حیثیت سے صدر پیوٹن نے بھی معاملے کو مزید گرم ہونے سے بچایا۔
جمعے کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ (شام پر) فوجی حملے سے ملک میں مزید فرقہ وارانہ فساد بڑھے گا جو ان کے الفاظ میں حالیہ تاریخ کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔
' میں خبردار کرنا چاہوں گا کہ بری طرح سے کیا گیا کوئی فوجی ایکشن شدید اور المناک نتائج مرتب کرے گا جبکہ فرقہ وارانہ فساد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے،' بان کی مون نےکہا۔
واضح رہے کہ ماضی میں امریکہ کے اہم حلیف برطانیہ نے بھی شام کیخلاف کسی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور دیگر کئی مغربی ممالک نےبھی یہی رائے اپنائی ہے۔ صرف فرانس وہ ملک ہے جو ابتک شام کیخلاف طاقت کے استعمال کا حامی ہے۔
اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی ، لخدر براہیمی نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی ملک ' قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا' اور نہ ہی شام کیخلاف فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔
جمعے کے روز سینٹ پیٹرس برگ میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں انہوں نے روسی وزیرِ خارجہ سرگائی لاوروف سے ملاقات کی اور کئی ممالک پر شام کے سیاسی حل پر زور دیا۔
اس موقع پر لاوروف نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ بعض ممالک اقوامِ متحدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے شام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔