پاکستان

سارہ انعام قتل کیس آخری مراحل میں داخل، مرکزی ملزم شاہنواز امیر کا بیان قلمبند

عدالت کے سامنے بیان میں ملزم نے تمام الزامات مسترد کردیے تاہم عدالت نے مزید ثبوت پیش کرنے کے لیے یکم نومبر کو اگلی سماعت تک وقت دے دیا۔
|

سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز امیر کا 342 کا بیان قلمبند کرلیا گیا، جس میں انہوں نے تمام الزامات مسترد کردیے جبکہ عدالت نے دفاع میں ثبوت پیش کرنے کے لیے مزید وقت دے دیا۔

ڈسٹرکٹ کورٹس اسلام آباد میں کیس کی سماعت سیشن جج ناصر جاوید رانا نے کی جہاں مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے 342 کے تحت اپنا مکمل بیان ریکارڈ کرایا جو گزشتہ سماعت میں مکمل نہیں ہوسکا تھا۔

کیس کے تفتیشی افسر نوازش علی ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے، ان کے علاوہ پراسیکیوٹر حسن عباس ایڈووکیٹ، شریک ملزمہ ثمینہ امیر شاہ حاضری سے مستقل استثنیٰ کے باوجود عدالت پیش ہوئیں، ان کے وکیل نثار اصغر ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔

سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں مقتولہ سارہ انعام کے والد انعام الرحیم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ عمرے کی ادائیگی کے لیے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔

مرکزی ملزم شاہنواز کے وکیل میاں بشارت اللہ ایڈووکیٹ کی موجودگی میں ان کا 342 کا مکمل بیان قلم بند کرلیا گیا ہے جبکہ گزشتہ سماعت پر ملزم شاہنواز امیر 342 کا بیان مکمل نہ ہو سکا تھا۔

بیان میں ملزم شاہنواز نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد قرار دے دیے۔

عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا اپنے دفاع میں کوئی بیان یا کسی قسم کا ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں، جس پر انہوں نے اگلی سماعت تک کچھ وقت دینے کی استدعا کی۔

عدالت نے آئندہ سماعت تک وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت یکم نومبر 2023 تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے گزشتہ سماعت کے دوران استغاثہ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے جمع کیے گئے ثبوت اور گواہان کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دے دیا تھا۔

مرکزی ملزم شاہنواز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے گزشتہ سماعت میں عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ 342 کے بیان کے لیے جوابات تیار کر لیے ہیں تاہم دو سوالوں پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ کسی گواہ نے نہیں کہا کہ مرسیڈیز گاڑی مقتولہ کے پیسوں سے لی گئی اور شاہنواز امیر پر مقتولہ کو ٹارچر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

شاہنواز امیر کا 342 کا بیان

سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم نے 18 اکتوبر کو سماعت کے دوران 342 کا بیان قلم بند کرایا تھا تاہم مکمل نہ ہوسکا تھا، جس میں انہوں نے تمام الزامات مسترد کردیے تھے۔

ملزم شاہنواز امیر نے کہا تھا کہ پراسیکیوشن نے جو ثبوت جمع کروائے ان کو جانتا ہوں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر پر متعدد انجریوں کا ذکر نہیں، پراسیکیوشن کی جانب سے جھوٹی کہانی بنانے کے لیے ڈاکٹر نے سر پر متعدد انجریوں کا بیان دیا۔

ملزم نے کہا تھا کہ مجھے سارہ انعام کے خون آلود کپڑوں کا کچھ معلوم نہیں، مقتولہ کے والد انعام الرحیم، چچا اکرام الرحیم کسی وقوع کے چشم دید گواہ نہیں جبکہ پولیس کو دیے گئے اپنے پہلے بیان میں والد انعام الرحیم نے مجھ پر قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ انعام الرحیم کو ظفر قریشی نے قتل کے بارے میں بتایا جو شاملِ تفتیش ہوا نہ ہی گواہ ہے، میرے کوئی خون آلود کپڑے پولیس کو برآمد نہیں ہوئے اور میرے خلاف پولیس نے قتل کی مکمل طور پر جھوٹی کہانی بنائی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جو تصاویر بطور ثبوت پیش کی گئیں اس پر بھی مجھے شک ہے، میں جائے وقوع کی کسی بھی تصویر میں موجود نہیں، میرے خلاف ڈمبل سے قتل کرنے کی کہانی بھی پولیس نے بعد میں بنائی ہے۔

ملزم شاہنواز امیر نے کہا تھا کہ پولیس نے جائے وقوع کا مکمل کنٹرول لے لیا تھا، میرے خلاف جائے وقوع سے مختلف تاریخوں پر ثبوت اکٹھے کیے گئے اور جائے وقوع سے برآمد کیے گئے ثبوت بھی جھوٹے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ میرے خلاف ریکارڈ پر لائے گئے میڈیکل ثبوت بھی متنازع ہیں، کوئی ریڈیولوجسٹ بطور گواہ نہ کوئی ایکسرے بطور ثبوت میرے خلاف پیش کیا گیا، پولیس نے مدعی کے ساتھ مل کر جھوٹی کہانی بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون ٹوٹنے کی کہانی اصل حقائق کو منظر عام سے حذف کرنے کے لیے بنائی گئی، پولیس نے سارہ انعام کی موبائل سم لی نہ ہی فرانزک کے لیے بھیجا جبکہ مدعی نے سارہ انعام کے اصل موبائل کو تبدیل کردیا۔

شاہنواز امیر نے کہا کہ پولیس نے ثبوت مدعی سے حاصل کیے جو میرے خلاف پلانٹ کیے گئے تھے، اگر ثبوت واقعے والے دن کمرے میں موجود تھے تو اسی دن پولیس نے کیوں نہیں برآمد کیے؟

ان کا کہنا تھا کہ میرے سارہ انعام کو بھیجے گئے وائس میسجز بھی مدعی کی جانب سے جھوٹی کہانی ہے، سارہ انعام کے موبائل سے میرے وائس میسجز برآمد نہیں ہوئے، جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس نے میری آواز ریکارڈ کی اور فرانزک کے لیے بھیج دی۔

انہوں نے کہا تھا کہ کسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں میری آواز کا نمونہ نہیں لیا گیا، 5 اکتوبر 2022 کو کیا گیا میرا مبینہ وائس سیمپل بھی ایف آئی اے کو نہیں بھیجا گیا، ایف آئی اے کی جانب سے میرے وائس سیمپل کی فرانزک بھی پولیس کی جانب سے من گھڑت کہانی ہے۔

ملزم نے کہا تھا کہ میرے طبی معائنے کی بھی کوئی درخواست نہیں تھی، میرے خلاف جھوٹی دستاویزات بنائی گئیں جبکہ مجھے معلوم نہیں پولیس نے میرے بینک اکاؤنٹ کی کون سی اسٹیٹمنٹ حاصل کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ میرے موبائل سے جائے وقوع کی لی گئی تصاویر کا مجھے معلوم نہیں، میرے اور سارہ انعام کی واٹس ایپ چیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے درمیان کچھ تنازع نہ تھا، میں اور میری اہلیہ سارہ انعام بہت خوشی سے ساتھ رہ رہے تھے اور وقوعہ والے روز سارہ انعام میرے پاس ہنسی خوشی موجود تھیں۔

سارہ قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ 22 ستمبر کو رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعے کو صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔

تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز عامر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کیا اور اس کی لاش باتھ روم کے باتھ ٹب میں چھپا دی۔

پولیس نے اس کی اطلاع پر لاش کو برآمد کیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متوفی کے سر پر زخم پائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا پولیس ٹیم نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کیا تھا جو ایک بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا۔

پرویز الہٰی کو کرپشن کیس سے ڈسچارج کرنے کے فیصلے پر اپیل پر ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب

صرف افغان نہیں، تمام غیرقانونی مقیم افراد کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ ہوا ہے، نگران وزیر داخلہ

پاک ۔ چین حالیہ معاہدوں سے سی پیک میں نئے باب کا اضافہ ہوگا، انوارالحق کاکڑ