پاکستان

پولیو کے خلاف پاکستان کی جنگ کا فوری اختتام بعید از امکان

کوئی قانون والدین کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر مجبور نہیں کر سکتا، مؤثر آگاہی مہم چلانی چاہیے، ویکسین کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں، ڈاکٹر عبدالغفور شورو

آج دنیا بھر میں پولیو کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان کی پولیو کے خلاف جنگ تاحال ختم نہیں ہوسکی ہے، ماہرین اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مزید جارحانہ اور جامع طرز عمل کی ضرورت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں شائع اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رواں برس 4 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں کراچی سمیت 7 شہروں میں رواں ماہ 11 نئے مثبت ماحولیاتی نمونے سامنے آئے ہیں، جس سے رواں برس ان کی مجموعی تعداد 54 ہوگئی ہے۔

حال ہی میں کراچی شرقی کی یونین کونسل گجرو میں 24 ماہ کے بچے میں پولیو کیس سامنے آیا ہے، یہ جون 2020 کے بعد شہر میں پہلا کیس ہے، کراچی کا آخری پولیو کیس مظفرآباد کی یونین کونسل لانڈھی میں رپورٹ ہوا تھا۔

کراچی میں سامنے آنے والے اس کیس اور پولیو سے درپیش چیلنجز پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے) کے ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ ایسوسی ایشن نے اس معاملے پر متعلقہ صوبائی حکام کے ساتھ گزشتہ روز تفصیلی بات چیت کی اور اس پر نظرثانی کی تجویز دی کیونکہ بچے کے پاخانے کا نمونہ منفی تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کچھ وبائی امراض کے فارمولے اور محدود شواہد کی بنیاد پر اسے پولیو کیس قرار دیا ہے کیونکہ بچے کا فالج اور اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی ایک کے پاخانے کا نمونہ مثبت آیا تھا، تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اس کیس کا جائزہ لیا جانا چاہیے کیونکہ بچے کے پاخانے کا نمونہ منفی تھا۔

ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ بچے کے فالج کا شکار ہونے کی وجہ پولیو کے علاوہ کوئی اور بیماری ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال اس فالج کے تقریباً 13 سے 14 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جو وائرل انفیکشن سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مذکورہ بچے کو حفاظتی ٹیکوں کی تمام خوراکیں مل چکی ہیں اس لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ پولیو سے متاثر ہوا ہے۔

دریں اثنا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے پولیو کے لیے مثبت ماحولیاتی نمونوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور نئے کیسز کی نشاندہی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے کہا کہ یہ ہمارے پولیو پروگرام کی خراب کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے، پاکستان اور افغانستان دنیا میں صرف 2 ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو سے بچوں کی صحت اور تندرستی کو خطرہ لاحق ہے، پاکستان عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پولیو سے متعلقہ سفری پابندیوں کا پابند رہتا ہے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے فول پروف حکمت عملی تیار کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس وائرس پر قابو پانے کے لیے سیوریج سسٹم کو ترجیحی بنیادوں پر محفوظ بنانا ہو گا، حکومت کو ایک مؤثر آگاہی مہم چلانی چاہیے، ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے اور عوام کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے مثبت رویہ اختیار کریں اور ویکسین لگوائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کسی قانون یا ایف آئی آر کے ذریعے والدین کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد تک اضافے کی منظوری

’افغانستان سے شکست کے بعد سیمی فائنل کی توقع کرنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہوگا‘

گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران 320 حملے، اسرائیلی جارحیت میں مزید 436 جاں بحق