ایران: میٹرو میں خواتین پولیس افسران کے مبینہ حملے میں زخمی لڑکی کے بحال ہونے کی امید نہیں، اہل خانہ
ایران میں خواتین پولیس افسران کی جانب سے مبینہ حملے کے نتیجے میں کومے میں چلی جانے والی 16 سالہ لڑکی کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر ایجسنی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے گروپ ’ہینگا‘ نے اس حوالے سے 16 سالہ ارمیتا گاروند کے خاندان کا بیان شائع کیا جہاں سرکاری میڈیا نے کہا تھا کہ اس واقعے کے بعد متاثرہ لڑکی ممکنہ طور پر ’دماغی طور پر مفلوج‘ ہوگئی ہیں۔
تاہم ایرانی حکام نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ارمیتا گاروند تہران میٹرو پر خواتین افسران کے ساتھ جھگڑے کے دوران بری طرح زخمی ہوئی تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونے کی وجہ سے ارمیتا گاروند گر گئی تھیں۔
ارمیتا گاروند کے والد بہمان گاروند نے حقوق گروپ کو بتایا کہ ’ارمیتا کی میڈیکل ٹیم نے بتایا ہے کہ اس کا دماغ کام نہیں کر رہا اور اس کے بحال ہونے کی کوئی امید نہیں ہے‘۔
حقوق گروپ نے کہا کہ یکم اکتوبر کو ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد سے لڑکی کا کوئی آپریشن نہیں ہوا کیونکہ ان کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔
ارمیتا گاروند تہران کے فجر ہسپتال میں ہیں جہاں انسانی حقوق کے گروپ ’ہینگا‘ اور دیگر ذرائع نے سخت سیکیورٹی کی موجودگی کی نشاندہی کی۔
قبل ازیں ’ہینگا‘ نے رپورٹ کیا کہ ارمیتا گاروند کی والدہ کو ہسپتال کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا لیکن بعدازاں انہیں رہا کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ ایران ارمیتا گاروند کی حالت سے پیدا ہونی والی بدامنی پر محتاط ہے جیسا کہ ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعدازاں وہ جاں بحق ہوگئی تھیں۔
قبل ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا کہ اس کی ایک آزادانہ تحقیقات کی جائے کہ ارمیتا گاروند کے ساتھ کیا ہوا اور کہا کہ حکام کی طرف سے ایسے واقعات کو چھپانے کے ثبوت موجود ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشل نے کہا کہ اس نے ایرانی میڈیا کی طرف سے شائع ہونے والی فوٹیج کا جائزہ لیا ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی تصادم نہیں ہوا اور پھر پتا چلا کہ فوٹیج کو ایڈٹ کیا گیا ہے، فریم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور تین منٹ سے زیادہ فوٹیج کو غائب کیا گیا ہے۔
تہران میٹرو کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود دورستی نے ارمیتا گاروند اور مسافروں یا میٹرو عملے کے درمیان کسی زبانی یا جسمانی تنازع کی تردید کی۔
بعدازاں ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے دو لڑکیوں کے انٹرویوز شائع کیے جنہوں نے بتایا کہ وہ ارمیتا گاروند کی دوست ہیں اور اس چیز کی تصدیق کی۔
حقوق گروپ ’ہینگا‘ نے کہا کہ سرکاری میڈیا کی طرف سے شائع کردہ لڑکی کے اہل خانہ اور عینی شاہدین کے انٹرویوز غیر تصدیق شدہ ہیں۔
ایمنسٹی نے کہا کہ اسے سنگین تحفظات ہیں کہ ارمیتا کے خاندان اور دوستوں کو پروپیگنڈا پر مبنی ویڈیوز میں آنے پر مجبور کیا گیا ہے اور جبر اور انتقامی کارروائیوں کی دھمکیوں کے تحت ریاستی بیانیہ دہرایا گیا ہے۔
ادھر ایرانی صحافی مریم لطفی کو ارمیتا کی حالت کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے فجر ہسپتال جانے کے بعد مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا گیا۔