بھارتی سرحد پر چین کی جانب سے اہم تنصیبات اور انفرااسٹرکچر قائم کرنے کا انکشاف
پینٹاگون کی جانب سے شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے بھارت کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر نئی سڑکوں، ہیلی پیڈ، پل اور ایک ہوائی اڈے کی تعمیر اور پڑوسی ملک بھوٹان کے متنازع علاقے میں نئے گاؤں شامل کرنے سمیت اہم انفراسٹرکچر اور تنصیبات کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کی طرف سے کانگریس کو پیش کردہ 2023 کی سالانہ رپورٹ ’چین کی فوجی اور سیکیورٹی پیش رفت‘ میں کہا گیا ہے کہ جون 2020 میں وادی گولان میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان تصادم کے بعد چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ مسلسل فورسز کی موجودگی برقرار رکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو جاری رکھا ہے۔
رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں سرحد پر چینی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2022 میں چین نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجی تنصیبات بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان میں ڈوکلام کے قریب زیر زمین ذخیرہ کرنے کی سہولیات، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے تینوں سیکٹرز میں نئی سڑکیں، پڑوسی ملک بھوٹان میں متنازع علاقوں میں نئے گاؤں کی شمولیت، پینگونگ جھیل پر دوسرا پل، سینٹر سیکٹر کے قریب ہوائی اڈہ اور متعدد ہیلی پیڈ کی تعمیر شامل ہے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے سرحد پر افرادی قوت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2022 میں چین نے ایک بارڈر رجمنٹ کو تعینات کیا تھا جس کی مدد سے سنکیانگ اور تربت کے اضلاع کے دو فوجی ڈویژنوں کی طرف سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے مغربی سیکٹر میں چار مشترکہ مسلح بریگیڈ کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ مشرقی لداخ میں متعدد مقامات پر اپریل مئی 2020 سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔
تاہم اس بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب وادی گولان میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں کم از کم 24 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان عسکری سطح پر روابط کے ساتھ ساتھ دفتر خارجہ کے حکام کے مابین بھی مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی تعمیر سے متعلق گزشتہ منصوبوں کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
2020 کی رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع نے کہا تھا کہ چین 2030 تک اپنے جوہری ہتھیاروں کو دوگنا کرے گا۔
پینٹاگون نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چین نے اپنی جوہری توسیع کو تیز کر دیا ہے، اور اندازہ ہے کہ مئی 2023 تک چین کے ذخیرے میں 500 سے زیادہ آپریشنل نیوکلیئر وار ہیڈز شامل ہوں۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ تخمینہ یہ ہے کہ چین کے پاس 2030 تک ایک ہزار آپریشنل نیوکلیئر وار ہیڈز ہوں گے۔ علاوہ ازیں چین نے یوکرین پر روس کے حملے سے بھی سبق سیکھا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے تقریباً دفاعی اور تکنیکی خود کفالت اور مالیاتی لچک کے لیے چین کے دباؤ کو بڑھا دیا ہے۔
پینٹاگون نے رپورٹ میں کہا کہ یوکرین کی جنگ چین کے لیے ایک بڑا غیر متوقع چیلنج تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی طرف روس کے ارادوں کے بارے میں متعدد انتباہات کے باوجود، چین کو یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے مکمل دائرہ کار سے دور رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے روس کو مادی مدد فراہم کرنے کے لیے لچکدار مؤقف اور محتاط رویہ اپنایا ہے۔
پینٹاگون نے کہا کہ چین کے رہنماؤں اور حکام نے چین-روس تعلقات پر بین الاقوامی تنقید کو ہٹانے اور اعلی سطحی سفارتی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے تنازعہ میں چین کے غیر جانبدار کردار پر زور دیتے ہوئے اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی ہے۔