عمران خان کی سب سے بڑی غلطی 9 مئی کے واقعات ہیں، شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ عمران خان کی سب سے بڑی غلطی 9 مئی کے واقعات تھے، 9 مئی ہمارے اور عمران خان کے لیے سیاہ ترین دن تھا۔
نجی چینل سما نیوز کے پروگرام ’میرے سوال ود منیب فاروق‘ میں میزبان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ’سمجھیں میں تبلیغی جماعت کا چلہ پر تھا، 40 دن قرآن کا مطالعہ کرتا رہا اور اللہ نے وقت دیا کہ میں قرآن کی تلاوت کروں لیکن خبریں لگتی رہتی ہیں، خبروں کی کوئی بات نہیں اور اللہ نے زندگی میں 40 دن لگانے کا تھوڑا وقت دیا تو میں قرآن کے مطالعے پر زیادہ وقت گزارا‘۔
میزبان کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’چلہ سخت تھا اور صحت پر اس کے کافی زیادہ اثرات آئے ہیں، یہ خاموشی کا چلہ تھا، عبادت کا وقت ملا اور تہجد کے وقت خدا سے مانگنے کا موقع ملا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شیخ راشد اور شیخ شاکر میرے بیٹوں کی جگہ ہیں، ان کو فکر لگی رہی لیکن میں ان کو بتا نہ سکا، کل کو ان بتا دیا تھا کہ میں چلہ سے فارغ ہوگیا اور 40 دن پورے ہوگئے ہیں اور ملاقات آج ہوگئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس چلے میں مجھے کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، سب نے تعاون کیا، ہر فریق نے تعاون کیا، وضو کے لیے پانی دیا اور سب لوگوں نے تعاون کیا اور یہ 40 دن خوش اسلوبی سے کٹ گئے‘۔
میزبان نے سابق وزیرداخلہ سے سوال کیا کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس پر یقین کرجاؤں گا تو شیخ رشید نے کہا کہ ’مجھے پتا ہے آپ اتفاق نہیں کریں گے لیکن میرے لیے آج اتفاق کرہی لیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں انٹرویو اس لیے دینا چاہتا ہوں کیونکہ یہ اب رسم سی بن گئی ہے‘۔
شیخ رشید نے کہا پاکستان میں میری سب سے چھوٹی پارٹی ہے جس کے پاس ایک نشست ہے اور میں پہلے دن سے پاک افواج کے ساتھ ہوں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’میں کل بھی فوج کے ساتھ کھڑا تھا، آج بھی فوج کے ساتھ کھڑا ہوں اور اصلی و نسلی ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں بڑی دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں پاک فوج دنیا کی عظیم افواج ہے اور میں نے سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی یہ درخواست کی تھی کہ ان کے ساتھ بنا کر رکھیں‘۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’یہ عجیب اتفاق ہے کہ جو تین لوگ عمران خان کی طرف سے پاک فوج سے مذاکرات کر رہے تھے ان تینوں نے اپنی جماعت بنالی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’9 مئی کے واقعات کے وقت میں پاکستان سے باہر تھا، اگر ہوتا بھی تو کیا کرلیتا، میں نے 10 مئی کو واقعات کی مذمت کی لیکن وہ سنی نہیں گئی‘۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’پاک فوج جیسے اداروں کے نام نہ لیے جائیں، یہ ملک اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا، معیشت کے جو حالات ہیں ملکی اداروں اور سیاست دانوں کو مل کر چلنا چاہیے اور جب کسی ادارے کی سیاست دان سے لڑائی ہوتی ہے تو ادارہ ہی جیت جاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ سے ہماری لڑائی نہیں بنتی تھی اور یہ میں کہتا بھی رہا ہوں، جب مذاکرات ہو رہے تھے تو میں نے کہا کہ میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالوں کیونکہ پنڈی کے لوگوں کا کسی نہ کسی فوجی افسر سے تعلق رہتا ہے لیکن عمران خان کی طرف سے مجھے منع کیا گیا‘۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’جو لوگ مجھے جانتے ہیں ان کو پتا ہے کہ میں فوج کے خلاف نہیں جا سکتا، ہمارے مسائل اتنے الجھ گئے ہیں کہ ان کو سلجھانا چاہیے‘۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ہماری غلطی وہیں سے شروع ہوئے کہ ہم نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے کہا کہ ’آبیل مجھے مار‘، جو فیصلہ آرمی چیف کرتا ہے وہی پوری فوج کو ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان ایک ضدی سیاست دان ہیں، 9 مئی کے واقعات کی ہر جمعے کے خطبے میں مذمت کرنی چاہیے، میں نے جب 10 مئی کو مذمت کی تو اداروں میں موجود میرے دوستوں نے کہا کہ ہم نے مذمت نہیں دیکھی اور میں دوسرے مرتبہ مذمت کرکے ان کو بیان بھیجا لیکن پھر بھی وہی جواب ملا‘۔
انہوں نے کہا میں نے عزم کیا ہے کہ ’9 مئی کے واقعات میں ملوث اور بے گناہ لوگوں کو ایک معافی دلاؤں گا کیونکہ بہت سے لوگ غریب ہیں، حالات بہت خراب ہیں، میں تہجد میں دعا کرتا تھا کہ مجھے ایک موقع ملے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے درخواست کروں کہ ان کو معافی دے دیں‘۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’عمران خان، شیریں مزاری اور زلفی بخاری نے جس قسم کا بیانیہ بنایا وہ پھیلایا گیا جس پر ردعمل آیا‘، مزید کہا کہ ’جن لوگوں نے کم ظرفی کی ہے، چھوٹے پن کا مظاہرہ کیا ہے، فوج کو ایک بار انہیں معاف کرنا چاہیے‘۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا کہ ’عمران خان کی سب سے بڑی غلطی 9 مئی کے واقعات تھے، 9 مئی ہمارے اور عمران خان کے لیے سیاہ ترین دن تھا‘۔
خیال رہے کہ شیخ رشید احمد کو 17 ستمبر کو راولپنڈی کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاتھا۔
شیخ رشید کے وکیل ایڈووکیٹ سردار عبدالرازق خان نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کے دوران گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھاکہ شیخ رشید کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ان کے گھر سے سول کپڑوں میں ملبوس لوگ گرفتار کرکے لے گئے۔
شیخ رشید کے بھتیجے اور سابق رکن قومی اسمبلی شیخ راشد شفیق نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ابھی مغرب کی نماز کے بعد شیخ رشید احمد کو راولپنڈی میں واقع بحریہ ٹاؤن فیز 3 سے پنجاب پولیس نے گرفتار کیا ہے اور گرفتار کرنے کے بعد یہ نہیں پتا کہ وہ اس وقت کہاں پر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے ساتھ ساتھ میرے بڑے بھائی شیخ شاکر اور ہمارے ایک ملازم شیخ عمران کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں۔
شیخ راشد شفیق نے کہا تھا کہ حالات و واقعات کے تناظر میں اعلیٰ اداروں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ تینوں گرفتار افراد کہاں ہیں، اگر وہ کسی مقدمے میں مطلوب ہیں تو انہیں تھانے اور عدالت میں پیش کیا جائے، ہم قانونی جنگ لڑیں گے اور اپنے حق کے لیے کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام اداروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ شیخ رشید ایک سینئر سیاست دان ہیں اور انہیں اس طریقے سے نہیں اٹھایا جا سکتا، ان پر کوئی ایف آئی آر نہیں ہے تو ہمیں فوری طور پر بتایا جائے کہ وہ کس تھانے میں ہیں اور انہیں کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
سابق رکن اسمبلی نے خبردار کیا تھا کہ اگر شیخ رشید کی جان کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو موجودہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار ہو گی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور پی ٹی آئی چیئرمین کے اتحادی شیخ رشید احمد 9 مئی کے واقعات کے بعد سے عوامی منظر نامے سے غائب تھے۔
شیخ رشید نے جون میں اسلام آباد پولیس پر الزام لگایا تھا کہ ان کے گھر میں گھس کر ان کے نوکروں کو مارا پیٹا اور دعویٰ کیا تھا کہ ایک دوسرے واقعے میں سادہ کپڑوں میں ملبوس فورس نے راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ لال حویلی پر ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اس سے قبل رواں سال فروری میں بھی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا تھا جہاں ان کے خلاف اسلام آباد کے آبپارہ تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120-بی، دفعہ 153 اے اور دفعہ 505 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔