سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت کا حکم معطل کردیا
سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کو معطل کردیا جس میں اسد قیصر سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر رہنماؤں کو 9 مئی کو پارٹی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پُرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات میں ضمانت دی گئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مسرت ہلالی نے حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کا 4 اگست 2023 کا فیصلہ آئندہ سماعت تک معطل کر دیا۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ضمانتیں منظور کرنے کے علاوہ فیصلے میں پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن کو اسد قیصر سمیت رنگیز احمد، عاقب اللہ اور عطا اللہ کو نہ صرف اس مقدمے بلکہ ان پر دائر دیگر مجرمانہ مقدموں میں بھی حراست میں لینے سے روک دیا تھا، اس سلسلے میں عدالت نے صوبے کے تمام قانونی افسران کو سرکلر بھی جاری کردیے تھے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اس سرکلر کو معطل کر کے پی ٹی آئی رہنماؤں کو نوٹسز جاری کردیے، جن کی نمائندگی کے لیے ایڈووکیٹ شیر افضل مروت عدالت کے کمرہ نمبر 2 میں موجود تھے، تاہم عدالت نے انہیں نوٹس دیے جانے پر دلائل دینے کی ہدایت دی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا محمد نثار نے عدالت عظمٰی کو اس بات سے آگاہ کیا کہ 2 جون 2023 کو مدعی علیہان پر تھانہ صوابی میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 اور 162 کے ساتھ انسداد بدعنوانی ایکٹ 1947 (پی سی اے)کی دفعہ 5 (2)کے تحت دائر کی گئی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا، ایک الگ مقدمے میں ملزمان پر 10 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے حوالے سے دہشت گردی کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
متعلقہ انسداد بدعنوانی کی عدالت سے رجوع کرنے کے لیے مدعا علیہان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 498 کے تحت میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی، 17 جولائی 2023 کو ہائی کورٹ نے اس ہدایت کے ساتھ ضمانت منظور کی کہ دیے گئے وقت میں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنا ہوگا، جس کی میعاد 24 جولائی کو مکمل ہونی تھی۔
محمد نثار کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور متعلقہ عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
اسی دوران صوابی کے سیشن جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم موصول ہوا، 2 اگست کو مدعا علیہان نے ایبٹ آباد سیشن جج کے سامنے ایک اور درخواست دائر کی اور مشتبہ طور پر پہلے دائر کی گئی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کو چھپایا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے مطابق سیشن جج نے ضمانت دیتے ہوئے مدعا علیہان کو اس بات کی ہدایت دی کہ وہ متعلقہ انسداد بدعنوانی کی عدالت سے رجوع کریں مگر متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی، جس نے اس حقیقت کے باوجود کہ یہ معاملہ پہلے ہی دوسری عدالتوں میں چل رہا ہے انہیں ضمانت دے دی۔
رنگیز احمد کو صوابی جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا، اس کے بعد اس معاملے کو پشاور ہائی کورٹ کے جج نے اٹھایا، جس نے اس مقدمے کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا، چیف جسٹس نے رنگیز احمد کو عدالت لانے کا حکم دیا، جس کے بعد انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے جس طرح رنگیز احمد کو ضمانت دی، درحقیقت اس کا مقصد ضابطہ فوجداری کی پوری اسکیم کو دبانا تھا کیونکہ عدالت نے کسی درخواست یا مچلکے جمع ہوئے بغیر ہی ان کو نہ صرف ضمانت دی بلکہ انتظامیہ کو حکم بھی جاری کیا کہ رنگیز احمد کو اس مقدمے یا کسی دیگر مجرمانہ مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
محمد نثار نے پشاور ہائی کورٹ کے دیے گئے فیصلے کے چند اقتباسات کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں مدعی کو حراست میں لینے سے روکا گیا تھا،کہا کہ عدالت کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کے بعد مدعی کو آزاد کردیا گیا ، کسی دوسرے مجرمانہ مقدمے میں ان کی گرفتاری متعلقہ عدالت کے حکم کے بغیر نہیں کی جاسکتی تھی۔
حکم کی بنیاد پر پشاور ہائی کورٹ نے تمام ضلعی اور سیشن جج کو سرکلر بھی جاری کردیا تھا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا مزید کہنا تھا کہ چنانچہ پشاور ہائی کورٹ کا حکم غیر قانونی کاموں سے بھرا ہوا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ بنا کسی ضمانت کی درخواست یا سی آر پی سی کی دفعہ 498۔اے کے مینڈیٹ کے ایک قابل سزا جرم پر ملزمان کو آزاد کرنے اور گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
محمد نثار نے کہا کہ کسی بھی شخص کو گرفتار نہ کرنے کا حکم ضابطہ فوجداری کے خلاف ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5 اکتوبر کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بلینکٹ ضمانت کے احکامات جاری کرنے کے رجحان پر استثنیٰ لیا تھا اور ایسے احکامات سے منسلک قانونی تقدس کے حوالے سے معاونت کی درخواست کی تھی تاکہ کسی فرد کی نامعلوم ایف آئی آرز میں گرفتاری کو روکا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کیا تھا۔