اقوام متحدہ کے ماہرین کا پاکستان پر افغان مہاجرین کی بے دخلی کا منصوبہ ترک کرنے پر زور
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ 14 لاکھ افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا منصوبہ فوری طور پر منسوخ کر دے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنیوا سے اقوام متحدہ کے تارکین وطن کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے فیلیپ گونزالیز مورالس، افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ اور خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد، اس کی وجوہات اور نتائج کے خصوصی نمائندے ریم السالم نے مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے متعلقہ حکام کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے تاکہ ملک میں حفاظت کے خواہاں لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ’ماہرین افغانستان واپس بھیجے جانے والے افغان شہریوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے پریشان ہیں، جن میں بہت سے خاندان، خواتین اور بچے شامل ہیں کیونکہ ان میں سےکئی لوگ اپنے ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور زیادتیوں سمیت ناقابل تلافی نقصان کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ خطرات سے دوچار مہاجرین کی اپنے ملک میں واپسی کے حوالے سے مطلق اور ناقابل توہین کا اصول برقرار رکھتے ہوئے اجتماعی بے دخلی اور جبری واپسی روک دے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملکی پناہ گزینوں سے متعلق قوانین اور طریقہ کار کی کمی ریاستوں کو ان کے بین الاقوامی انسانی حقوق اور روایتی قانون کے تحت عدم تحفظ کے اصول کی ذمہ داریاں نبھانے سے آزاد نہیں کرتا‘۔
تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف 1984 میں منظور کیے گئے کنونشن میں جبری بے دخلی کی واضح طور پر ممانعت شامل ہے، جس کا پاکستان بطور ریاستی ایک فریق ہے۔
دستاویزات کے بغیر مقیم غیر ملکی
لاکھوں افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دینے والی پاکستانی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ تمام غیر ملکی جن کے پاس دستاویزات موجود نہیں ہیں، کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنا ہوگا یا ان کو اپنے آبائی ملک میں جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑ ےگا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ خاص طور پر ان 14 لاکھ افغان مہاجرین پر اثر انداز ہوگا، جن میں بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے سنگین انسانی حقوق کے خدشات اور افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے پیش نظر اپنے تحفظ کے لیے پاکستان ہجرت کی تھی۔
دسمبر 2021 میں اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے خط لکھ کر پاکستان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ طالبان کے قبضے کے بعد افغان شہریوں کی بے دخلی کو اس وقت تک روکے جب تک افغانستان میں حالات اور انسانی حقوق کی صورت حال محفوظ اور باوقار واپسی کی اجازت نہیں دیتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی حفاظت کے پیش نظر ملک سے فرار ہونے والے افغان باشندوں کی میزبانی جاری رکھنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کو ان مہاجرین کی ایسے طریقہ کار تک مکمل رسائی بھی یقینی بنانی چاہیے جو ان کے انفرادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کے معیارات کے مطابق ان کے مؤثر تحفظ کی ضرورت کا بھی مکمل جائزہ لیناچاہیے۔
ہمیں ان رپورٹس پر بھی خدشات ہیں کہ جب سے پاکستان نے وطن واپسی کے منصوبے کا اعلان کیا ہے تب سے یہاں مقیم افغان باشندوں کو گرفتاریوں، استحصال اور غیرمعمولی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کمزوروں کو ترجیح
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسے لوگوں کو ترجیح دینی چاہیے جنہیں تحفظ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جن میں وہ افغان خواتین، لڑکیاں، بزرگ، نیز سابق افغان حکومتی اہلکار اور سیکیورٹی اہلکار، انسانی حقوق کے محافظ، دیگر سول سوسائٹی کے کارکنان اور میڈیا ورکرز شامل ہیں جن کو صنفی، مذہبی، یا نسلی بنیادوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے، ان لوگوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق ’وہ افغان باشندوں کی برسوں تک میزبانی کرنے پر پاکستان کو سراہتے ہیں اور وہ خود بھی پاکستان کے لیے مثبت کردار ادا کی پوزیشن میں ہیں اور ان کی بین الاقوامی برادری اور رکن ممالک سے اپیل ہےکہ وہ افغان مہاجرین کی محفوظ آباد کاری میں سہولت فراہم کرتے رہیں اور ان کا تحفظ یقینی بنائیں۔