دنیا

پاکستان سے امریکی ویزوں، پناہ کے منتظر افغان درخواست گزاروں کو ڈیپورٹ نہ کرنے کا مطالبہ

افغان پناہ گزینوں کو واپس ایسے ماحول میں ڈیپورٹ کرنا جہاں ان کی زندگیاں خطرے میں ہوں، انسانی ہمدردی کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے، سابق امریکی عہدیداران
Welcome

امریکا کے سابق اعلیٰ عہدیداران اور پناہ گزینوں کو دوبارہ آباد کرنے والی امریکی تنظیموں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ خصوصی امریکی ویزوں کے ہزاروں افغان درخواست گزاروں یا پناہ گزینوں کے طور پر امریکا میں داخل ہونے کا انتظار کرنے والوں کو ڈیپورٹ کرنے سے استثنیٰ دیا جائے۔

پاکستان کی نگران حکومت نے لاکھوں افغانوں سمیت تمام غیر قانونی تارکین وطن کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں یا جبری بے دخلی کا سامنا کریں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق سابق امریکی عہدیداران، دیگر افراد اور پناہ گزینوں کو دوبارہ آباد کرنے والی تنظیموں کی طرف سے 80 دستخطوں کے ساتھ پاکستانی سفارت خانے کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’افغان پناہ گزینوں کو واپس ایسے ماحول میں ڈیپورٹ کرنا جہاں ان کی زندگیاں خطرے میں ہوں، پاکستان کی طرف سے دستخط کیے گئے انسانی ہمدردی کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے۔‘

خط لکھنے والوں میں جولائی تک پینٹاگون کے نمبر 3 عہدیدار کولن کاہل، کابل میں تین سابق امریکی سفرا اور دو ریٹائرڈ امریکی جنرلز بھی شامل ہیں۔

اس خط کو افغان ایویک نامی ادارے کی طرف سے تیار کیا گیا ہے جو کہ امریکا کی طالبان کے ساتھ 20 سالہ جنگ میں امریکا یا امریکی تنظیوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کو افغانستان میں انتقام لیے جانے کے خطرے کے باعث امریکا میں دوبارہ آباد کرنے والے امریکی گروپوں کا اہم اتحاد ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں وہ لوگ جو امریکی خصوصی ویزوں یا پناہ گزینوں کے طور پر اپنی درخواستوں پر عمل کا انتظار کر رہے ہیں جن میں سابق مترجم، صحافی، خواتین کے حقوق کے کارکن اور دیگر پیشہ ور افراد شامل ہیں، انہیں اپنے وطن واپس جانے پر سنگین خطرات کا سامنا ہوگا۔

خط پر دستخط کرنے والوں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ ایسے افغان باشندوں کو ڈیپورٹ کرنے کا عمل فوری طور پر روکا جائے اور کچھ وقت تک انہیں ڈیپورٹ کرنے یا جیل میں ڈالنے سے استثنیٰ دیا جائے۔

پاکستان کی نگران حکومت کہہ چکی ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کو ڈیپورٹ کرنے کا عمل مرحلہ وار ہوگا جس کا آغاز کرمنل ریکارڈ رکھنے والے افراد سے ہوگا۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق ملک بھر میں 17 لاکھ سے زائد افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

خیال رہے کہ نگران حکومت کے اس فیصلے پر افغان طالبان نے ردعمل دیا تھا اور افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایسے اقدام کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکام سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ تقریباً 20 ہزار یا اس سے زیادہ افغان باشندے 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد فرار ہو گئے تھے جو کہ پاکستان میں امریکی خصوصی امیگریشن ویزا یا پناہ گزینوں کے طور پر امریکا میں آباد ہونے کے لیے اپنی درخواستوں پر عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

چلنے میں دشواری ’الزائمر‘ کی ممکنہ ابتدائی علامت

ورلڈ کپ 2023 کا دوسرا بڑا اپ سیٹ، جنوبی افریقہ کو نیدرلینڈز کے ہاتھوں شکست

ورلڈ کپ میں بھارت کو ہرانا کسی بھی ٹیم کے لیے مشکل ہو گا، پونٹنگ