بھارتی سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی قانونی قرار دینے کی درخواست مسترد
بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت سپریم کورٹ نہیں دے سکتی، ایسا قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل بینچ نے اپریل اور مئی کے درمیان کیس میں دلائل سننے کے بعد آج اس بارے میں فیصلہ سنایا ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے ایک حد تک اتفاق اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے بارے میں عدالت کا دائرہ اختیار کس حد تک ہے۔
دیگر 4 ججوں میں سے 2 نے چیف جسٹس کی رائے سے اتفاق کیا، 2 دیگر ججوں نے اس حوالے سے ابھی رائے دینی ہے۔
عدالتی فیصلہ 2018 کے تاریخی فیصلے کے 5 برس بعد آیا ہے جب سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں پر نوآبادیاتی دور سے عائد پابندی کو ختم کر دیا تھا۔
ایشیا میں قدامت پسند اقدار اب بھی بڑی حد تک سیاست اور معاشرے پر حاوی ہیں، صرف تائیوان اور نیپال ایسے 2 ممالک ہیں جو ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی اجازت دیتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ان درخواستوں کی مخالفت کی تھی اور انہیں ’شہری اشرافیہ کے خیالات پر مبنی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر بحث اور قانون سازی کے لیے صحیح پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے۔
مودی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس طرح کی شادیاں بھارت میں خاندانی یونٹ کے اس تصور سے مطابقت نہیں رکھتیں جو ایک شوہر، ایک بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔