بھارت: ریپ، قتل کے سزائے موت کے دو خطرناک ملزمان برسوں بعد بری
بھارت کی عدالت نے 2005 میں 19 خواتین اور بچوں کا ریپ اور قتل کے الزام میں سزائے موت کا حق دار قرار پانے والے دو خطرناک ملزمان کو برسوں بعد بری کردیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق سریندر کولی اور ان کے کاروباری مالک مونیندر سنگھ پنڈھر کو بھیانک جرائم پر 2009 میں سزا سنائی گئی تھی، جس نے ملک کو شدید غم و غصے میں مبتلا کردیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ملزمان کو 2006 میں نئی دہلی میں ان کے گھر کے قریب انسانی اعضا برآمد ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
بھارت کی الہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کو فیصلہ سنایا اور سریندر کولی کو 12 مقدمات میں بے گناہ قرار دیا جن میں ان کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ عدالت نے مونیندر سنگھ پنڈھر کو بھی دو مقدمات میں بے گناہ قرار دیا۔
بری ہونے والے ملزمان کے وکلا نے بتایا کہ دونوں کو ثبوت کی عدم موجودگی کی بنا پر بری کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق قتل کا انکشاف 2006 میں اس وقت ہوا جب نئی دہلی کے مضافات میں مونیندر سنگھ پنڈھر کے گھر کے سامنے گٹر کے اندر سے انسانی اعضا اور بچوں کے کپڑے ملے تھے۔
پولیس کے مطابق کم از کم 19 خواتین اور بچوں کو ریپ کے بعد قتل کرکے جسم کے ٹکڑے کرکے پھینک دیا گیا تھا اور یہ قتل مونیندر سنگھ پنڈھر کے گھر میں ہوئے جہاں سریندر کولی ملازمت کرتے تھے۔
پولیس نے مزید کہا کہ بچوں کے اعضا بوریوں میں بند پائے گئے تھے جنہیں سریندر کولی نے چاکلیٹ اور دیگر اشیا کی لالچ دے کر قتل کیا تھا۔
پولیس نے مزید کہا کہ تفتیش کے دوران ملزم سریندر کولی نے آدم خور ہونے اور ریپ کا عادی مجرم ہونے کا اعتراف کیا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا یہ اعترافی بیان واپس لیتے ہوئے کہا کہ اسے تشدد کا نشانہ بناکر ایسا بیان دلوایا گیا ہے۔
بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے دونوں افراد کے خلاف 19 مقدمات درج کیے تھے جبکہ سریندر کولی پر قتل، اغوا، ریپ اور ثبوت مٹانے کے مقدمات درج تھے اور مونیندر سنگھ پنڈھر پر غیر اخلاقی تجارت کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق خواتین اور بچوں کے وحشیانہ قتل اور ریپ پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا اور پولیس کو اس حوالے سے غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا اور میڈیا نے ملک کو بدترین جرائم کی چونکا دینے والی نوعیت کی وجہ سے ’ہولناکیوں کا گھر‘ قرار دیا تھا۔
شہریوں نے کہا کہ متاثرہ افراد کے اہل خانہ غریب ہونے کی وجہ سے پولیس نے اس پر کارروائی نہیں کی اور سزا دلوانے میں ناکام رہی۔
ملزمان بھارتی علاقے نٹھاری نامی کچی آبادی میں رہتے تھے اس لیے اس کیس کو ’نٹھاری قتل‘ بھی کہا جاتا ہے۔