پاکستان

سپرپم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فیصلہ، ’جیتا کون‘

اگر میرٹ پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کا قانون ہونا چاہیے، جس میں اپیل بھی جائز ہے اپیل دینی چاہیے، بیرسٹر علی ظفر

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے حق میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو قانونی ماہرین نے خوش آئند قرار دیا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے والوں پر بھی بات کی اور سوال بھی کیا جیتا کون ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 رکنی فل کورٹ نے پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر 9 درخواستوں پر سماعت کی اور اس سے براہ راست نشر کیا گیا جہاں وکلا نے اپنے دلائل دیے۔

آخری روز اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل دیے اور اس کے بعد سپریم کورٹ بار کے صدر اور دوسرے درخواست کے وکیل نے جواب الجواب دلائل دیے اور سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا گیا۔

سپریم کورٹ نے لارجرز بینچ نے 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 برقرار رکھا تاہم اپیل کے حق اطلاق ماضی سے کرنے کی شق 7 کے مقابلے میں 8 اکثریت سے غیرآئینی قرار دی گئی اور درخواست گزاروں کی یہ استدعا منظور ہوئی تاہم اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی براہ راست سماعت کے تاریخی اقدام کے بعد سنائے گئے فیصلے پر مختلف ماہرین قانون نے ردعمل دیا اور اس سے خوش آئند قرار دیا اور سیاست دانوں کی جانب سے بھی فیصلے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔

’نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاسکتا‘

وکیل اسامہ خاور نے فیصلے کو کئی حوالوں سے حقیقی معنوں میں غیرمعمولی اور بہترین قرار دیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو جس طرح سماعت ہوئی وہ لاجواب تھی، پہلی مرتبہ ایک عہدیدار نے عوام کے سامنے شفافیت کا وعدہ کیا اور اپنے اختیارات اور مراعات کو خطرات کے باوجود شفافیت لائی اور پاکستان کے عوام کے سامنے عدالت عظمیٰ کی اچھائی، برائی اور بدتری پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ تشکیل دے کر کیمرے کے سامنے اپنی اکثریت ثابت نہ کرپانے کا خطرہ بھی مول لیا جس سے ان کی اتھارٹی پر فرق پڑسکتا تھا۔

اسامہ خاور کا کہنا تھا کہ اختیارات کے حامل شخص کی جانب سے اپنی طاقت اور فوائد کم کرنا بھی غیرمعمولی ہے، اس طرح کا طرز عمل دنیا میں تو ہے لیکن پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے، اس طرح کی واحد مثال سابق صدر آصف علی زرداری کی ہے جنہوں نے 18 ویں ترمیم کے تحت اپنے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کردیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کامیابی ذاتی طور پر آصف زرداری سے زیادہ مثالی ہے۔

’حیران ہوں جیت کس کی ہوئی‘

ماہر قانون عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ نواز شریف ایک سیکشن میں ہار گئے جو کہ ان کی مدد کر سکتا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تمام درخواستیں ہار گئیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جان بوجھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تعین کا اختیار کھو دیا۔

عبدالمعیز جعفری نے سوال کیا کہ میں حیران ہوں کہ جیتا کون ہے۔

قانونی ماہر سالار خان نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو ’ ایک شخص کے لیے مخصوص’ قانون قرار دیا جو کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اپیل فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

سالار خان نے کہا کہ ان کو اب یہ جان کر کچھ تسلی مل سکتی ہے کہ قانون کا ایک حصہ جسے برقرار نہیں رکھا گیا وہ پہلے سے طے شدہ مقدمات میں اپیل کا حق ہے۔

وکیل حسن علی نیازی نے کہا کہ اپنے ختیارات محدود کرنا ناقابل یقین دیانت داری اور قربانی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے عدلیہ، آئین اور قانونی کی حکمرانی کے لیے درست فیصلہ کیا ہے۔

حسن علی نیازی نے کہا کہ عدلیہ کو اندرونی اور بیرونی اثر رسوخ سے محفوظ بنانے کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور معروف قانون دان علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا، لہٰذا نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپیل کا حق نہیں ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‏مسلم لیگ (ن) کے لیے فائدہ ہو گا کیوںکہ کئی مقدمات چیلنج ہو سکیں گے۔

‏ بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کے مطابق پاناما اور دیگر فیصلوں کے خلاف اپیلیں فائل نہیں ہو سکیں گی، پہلے ایکٹ میں یہ حق دیا گیا تھا کہ ماضی کے فیصلوں کے خلاف بھی اپیلیں فائل ہو سکتی تھیں۔

ماہر قانون علی ظفر نے کہا کہ چونکہ براہ راست نشریات چل رہی تھی تو یہی اندازہ تھا کہ اکثریتی فیصلہ ہوگا۔

جیو نیوز پر بات کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ اگر میرٹ پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کا قانون ہونا چاہیے، جس میں اپیل بھی جائز ہے اپیل دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس جو اختیارات ہیں اگر وہ ان اختیارات کو اپنے دو ساتھی ججوں کے ساتھ شیئر کرلیں تو اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

علی ظفر نے کہا کہ زیادہ تر بحث یہ تھی کہ یہ قانون کس طرح نافذ کیا گیا، کیا یہ آئینی ترمیم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا یا عام قانون سے بھی عمل درآمد ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب چونکہ فیصلہ آگیا ہے، جس سے کچھ چیزیں واضح ہوگئیں کہ آئین سب سے بالاتر ہے، آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے اگر پارلیمان قانون بناتا ہے تو سپریم کورٹ اس پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے اور اگر پارلیمان ایسا قانون پاس کرے جو آئین کے خلاف ہے تو سپریم کورٹ کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرے۔

ماہر قانون علی ظفر نے کہا کہ اگر 15 جج ہی فیصلہ کریں تو پھر اپیل کس کے پاس جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ اگر تین یا پانچ جج فیصلہ کرتے تو لارجر بینچ میں اپیل ہو سکتی تھی لیکن اگر 15 جج ہی فیصلہ کریں تو پھر اپیل کہاں جائے گی۔

’فیصلے کا خیرمقدم‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس سے ستائشی اقدام قرار دیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 شہباز شریف کے دور میں اتحادی حکومت نے بنایا گیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ اس سے سپریم کورٹ کا کام از خود نہ صرف جمہوری ہوگا بلکہ یہ پارلیمنٹ کے احترام کا مظہر ہے جو عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ قانونی ماہرین کے مطابق ماضی کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حوالے سے مخصوص زیر بحث شق کا نواز شریف پر اثر نہیں پڑے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیری رحمٰن نے کہا کہ آج کی سماعت اور فیصلے سے عدالت عظمیٰ کی شفافیت اور بہتر تشخص میں اضافہ ہوگیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ قدم پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بھی ضروری ہے جس کا اولین کام قانون سازی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق عدالت عظمیٰ سے سیاسی امیدیں لگانے والے گروہ کے حصے میں مایوسی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے بعد صادق و امین عمران خان کے خلاف سازشوں کے امکانات بھی دم توڑ گئے ہیں اور جعلی اور جھوٹے مقدمات چیئرمین پی ٹی آئی کو دیے گئے صداقت و امانت کے سرٹیفکیٹ پر کسی طور اثرانداز نہیں ہوسکتے ہیں۔

قانون کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

پھیکی کافی اور چائے پینے کا یہ فائدہ جانتے ہیں؟

روہت کی جارحانہ سنچری، افغانستان کو بھارت کے ہاتھوں 8وکٹوں سے شکست

اسرائیل-فلسطین تنازع ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے، وزیراعظم