ووٹ کی عزت کو جو خطرہ تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اس وقت تھا جب ووٹ کی عزت کو خطرہ تھا، ووٹ کی عزت کو جن سے خطرہ تھا وہ ہٹ گئے ہیں تو اب وہ خطرہ ختم ہو چکا ہے لیکن اس نعرے سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان نے جھوٹ بولا تھا، ایک غیر ضروری کاغذ اٹھا کر اس کو ایشو بنایا، امریکا کا چمچہ اور نمائندہ یہاں انہی کے خلاف چورن بیچ رہا تھا کیونکہ پاکستان میں یہ چورن اچھا بکتا ہے، انہوں نے چورن بیچنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی، ایسی باتوں سے جس سے عالمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہوں تو یہ کوئی ایسی بات تو نہیں ہے کہ ہم جس کو ایک کاغذ قرار دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اس وقت تھا جب ووٹ کی عزت کو خطرہ تھا، ووٹ کی عزت کو جن سے خطرہ تھا وہ ہٹ گئے ہیں تو اب وہ خطرہ نہیں رہا لیکن اس نعرے سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
’پاکستان کو مسئلہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے‘
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پوری عرب دنیا کو چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کی مالی اور اخلاقی طور پر مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی سرحدوں کی طرف مارچ کرے، ان کی پشت پر کھڑا ہوجانا چاہیے اور اسلامی دنیا کو ایک قوت اور جسم بن کر اس مسئلے پر اپنا مؤقف واضح کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بھی فلسطین اور اسرائیل کے معاملے پر کچھ اطمینان بخش مؤقف سامنے نہیں آیا ہے جبکہ مودی نے بڑی وضاحت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے، پاکستان کو بڑے غیر مبہم الفاظ کے ساتھ فلسطین اور مسئلہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اساسی مؤقف رہا ہے، اس کو ہم کئی حوالوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، 1940 کی قرارداد میں خود قائد اعظم محمد علی جناح نے اس بات کا اضافہ کیا تھا کہ فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں قائم کرنے کا عمل ناجائز ہے اور ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے مزید کہا کہ 1967 اور اس کے بعد دو جنگوں میں پاکستان کی فوج اور فضائیہ وہاں لڑی ہے، ہمارے پائلٹس نے ان کے جہاز گرائے ہیں، یہ بھی پاکستان کی ایک زمانے میں روش رہی ہے اور ہمیں اس روش پر واپس آجانا چاہیے، کم از کم ہمارا مؤقف واضح ہو جانا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے سب کام اکٹھے کیے ہیں، پیپلز پارٹی نے کابینہ میں بیٹھ کر فیصلے میں شریک رہی ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرائے جائیں، اب نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، اس کے لیے لوگوں کو اعتراض کا نیا وقت دینا پڑے گا، یہ سب ان کے لوازمات میں سے ہے، باہر آکر سیاست کرنے کے لیے وہ دوسری بات کر لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صاف گوئی سے کام لینا چاہیے، نئی مردم شماری پر سب نے اتفاق کیا تھا، الیکشن کمیشن اسی کے تحت کام کر رہی ہے، ابہام کیوں پیدا کیے جا رہے ہیں، اگر ہو سکے تو الیکشن کل کرا دیں، ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ الیکشن تو ہوں گے ہی ہوں گے لیکن اگر جنوری کے آخر میں ہوں گے تو آدھے ملک میں تو برفباری ہو گی، خضدار سے لے کر پورا بلوچستان، وزیرستان سے چترال تک، پورا سوات، کوہستان، ایبٹ آباد، مری تک سارے علاقے میں آبادی نہیں ہوتی اور یہ برفباری کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نیچے اتر آتے ہیں، تو کیا یہ لوگ ووٹ کا حق نہیں رکھیں گے، خواتین کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ اتنے فیصد پولنگ اسٹیشن پر ووٹ نہ پڑے تو الیکشن دوبارہ کرائے جائیں گے، جہاں انسان ہی نہ ہوں تو کیا ان کا ووٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔
افغان مہاجرین کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ جو رویہ روا رکھا گیا ہے وہ ہماری روایات کے خلاف ہے، نہ ہماری قومی روایات اس کی تائید کر سکتی ہے اور نہ ہماری اسلامی روایات اس کی تائید کر سکتی ہیں، ہمیں سلیقے کے ساتھ ایک پالیسی بنانی چاہیے، جبر اور تشدد مسئلے کا حل نہیں ہے۔