بلال مقصود کا ’میرا بچھڑا یار‘ سے ’پکے دوست‘ تک کا سفر
گزشتہ 30 سالوں سے بلال مقصود پیانو کی دھن پر ’میرا بچھڑا یار‘ جیسے گانے گا کر محبت، اسے کھو دینے اور اس سے دوبارہ ملنے کو بیان کررہے ہیں۔ مگر آج کل وہ ایک مختلف دھن بنانے میں مصروف ہیں۔
اب وہ آپ کو بارش کے بارے میں بتائیں گے، جلیبی کی خصوصیات گنوائیں گے اور حرفِ تہجی بھی اب منفرد انداز میں پیش کریں گے۔ گلوکار، نغمہ نگار اور معروف بینڈ اسٹرِنگز کے رکن نے اب ’پکے دوست‘ سے دوستی کرلی ہے۔
بلال مقصود بتاتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں۔
ہم ان کے گھر میں بیٹھے ہیں، اردگرد کنکریٹ اور شیشے کی دیواریں سبزے سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ پہلے کئی بار میں نے اسی جگہ ان سے انٹرویو لیا ہے جہاں میں نے ان سے نئے گانوں اور ماضی کے اتار چڑھاؤ پر گفتگو کی۔ لیکن آج میری یہاں آمد کا مقصد بالکل مختلف ہے۔ میں آج اردو زبان میں بچوں کے لیے مواد کی کمی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بلال سے دریافت کروں گی کہ آخر انہیں اس حوالے سے کام کرنے کا خیال کیسے آیا۔
بچوں کے لیے خصوصی گانوں اور اسکٹس پر مشتمل ’پکے دوست‘ کا پہلا سیزن اب یوٹیوب پر موجود ہے۔ پکے دوست نامی یہ پروگرام پتلیوں کے اسکٹس ہیں جبکہ بلال مقصود کے لکھے ہوئے گانے اور پتلیاں نچانے والے نوجوانوں کا گروپ ان رنگ برنگی پتلیوں میں جان ڈال دیتے ہیں۔
شوخ رنگوں کی کٹھ پتلیوں پر مبنی اس پروگرام کا مواد مزاحیہ اور اتنا جاذب توجہ ہے کہ اگر آپ کے گھر میں کوئی بچہ یہ پروگرام دیکھتا ہے تو شاید آپ بھی اس شو میں شامل جلیبی سے متعلق گانے گنگنانے لگیں۔
یہاں اس شو کی آواز اور بصری اثرات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ میرے نزدیک پکے دوست، بارنی اور سیسمی اسٹریٹ جیسے مقبول اور ہیوی ویٹ پروگراموں کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنے ان خیالات کا اظہار بلال سے بھی کیا اور انہوں نے میری اس بات پر اثبات میں سر ہلایا۔
بلال مقصود کا کہنا تھا کہ’میں اس بات پر مصر تھا کہ شو کے بصری اثرات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ آج کل کے بچوں کے پاس دیکھنے کے لیے بہت مواد ہے۔ اگر انہیں کوئی شو پسند یا سمجھ نہیں آتا تو وہ فوراً اسے تبدیل کردیتے ہیں۔
’ہم نے خاص روایات اور ثقافتوں کی نمائندگی جیسے پتلیوں کے سر پر سندھی ٹوپی یا اجرک شامل کرکے انہیں مخصوص روپ دینے سے بھی گریز کیا۔ بعض اوقات بچوں کے مواد میں مقامی رنگ شامل کرنے کے لیے یہ طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ رنگوں کے میل سے بچوں کو متوجہ کیا جائے اور بچے خود کو مختلف کرداروں سے جوڑ سکیں‘۔
یہ اس کام سے انتہائی مختلف ہے جس میں انہوں نے اپنا کریئر بنایا ہے، اس کے باوجود بلال مقصود بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے بچوں کے لیے تفریحی مواد بنانا چاہتے تھے حتیٰ کہ جب وہ اسٹرِنگز کے رکن کے طور پر کنسرٹ کیا کرتے تھے تب بھی یہ منصوبہ ان کے ذہن میں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ’جب میرا بیٹا میکائیل پیدا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ ایسا کوئی اردو پروگرام نہیں ہے جو میرا بیٹا دیکھ سکے۔ میں سہیل رانا کے پروگرامز اور گانے سنتے ہوئے بڑا ہوا ہوں لیکن اب میرا بیٹا انگریزی پروگرامز دیکھتا ہے۔
’میں بار بار اپنی اہلیہ کو اور اسٹرِنگز کے اپنے ساتھی فیصل کپاڈیا کو کہتا تھا کہ ہمیں بچوں کے لیے کچھ بنانے کی ضرورت ہے لیکن اسٹرِنگز کی وجہ سے ہم مصروف رہتے تھے، البمز ریلیز کرنے اور دنیا بھر میں کنسرٹس کرنے کی وجہ سے ہمیں کبھی وقت نہیں ملا کہ ہم اس پر توجہ دے سکیں‘۔
لیکن پھر وقت اور حالات بدل گئے۔
بلال مقصود نے انکل سرگم پروگرام کے خالق مرحوم فاروق قیصر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’میں نے 2019ء میں، فاروق قیصر صاحب سے رابطہ کیا’، ’ہم نے مکمل منصوبہ بندی کرلی تھی اور میں اب اسپانسرز کی تلاش میں تھا۔ اس وقت میرا یہ خیال تھا کہ اسپانسرز پتلیوں اور اسکرپٹ پر سرمایہ کاری کریں گے جبکہ میں اس شو کی موسیقی ترتیب دوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اسی دوران فاروق قیصر کا انتقال ہوگیا۔
’پھر میں نے اکیلے ہی اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ میں نے اس حوالے سے تحقیق کی۔ غور سے بچوں کے بین الاقوامی شوز دیکھے تاکہ میں لائٹنگ یا اسٹیج کی اونچائی جیسی تفصیلات کو سمجھ سکوں۔ مجھے یہ بتانے میں کوئی شرمندگی نہیں کہ میں بچوں کے مقبول ترین شو سیسمی اسٹریٹ کی طرز کا شو بنانا چاہتا تھا‘۔
ابتدائی طور پر بلال مقصود نے پتلیوں کے تماشوں کے لیے مشہور رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی یمینہ پیرزادہ سے رابطہ کیا تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکیں۔ بلال نے بتایا کہ ’انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے طور پر مواد بنانے کو ترجیح دیتے ہیں، جوکہ میرے لیے قابلِ فہم تھا‘۔
پھر بلال مقصود اپنے دائرہ کار کو پاکستان سے باہر لے کر گئے اور سیسمی اسٹریٹ شو میں پتلی نچانے والے ماہر رِک لی اون سے رابطہ کیا جوکہ ان کے خیالات سن کر کافی خوش ہوئے لیکن بدقسمتی سے وہ بلال مقصود کی ٹائم لائنز پر پورا نہیں اتر پائے۔ اس کے بعد بلال مقصود نے کینیڈا کے ایلیسن ایورٹ کا کام دیکھا۔
بلال مقصود بتاتے ہیں کہ ’مجھے ان کی پتلیاں بہت پسند آئیں۔ جب آپ پتلی نچانے والوں کی تلاش کا آغاز کرتے ہیں تو اس کی مختلف صنفیں آپ کے سامنے آتی ہیں۔ کچھ پتلیوں کا مواد بڑی عمر کے ناظرین کے لیے بنایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب میں تو ایسی پتلیوں کی تلاش میں تھا جو بچوں کو اپنی جانب متوجہ کریں۔ اس حوالے سے جب میں نے ایلیسن کا کام دیکھا تو مجھے لگا کہ مجھے اپنے شو کے لیے اسی کی تو تلاش تھی۔
’انہوں نے میرے لیے 8 پتلیاں بنائیں جن میں سے 6 آپ کو پکے دوست میں نظر آئیں گی۔ جب مجھے یہ پتلیاں موصول ہوئیں تب لگا کہ ہاں اب واقعی میں اس پر کام کرسکتا ہوں‘۔
میں نے بلال مقصود سے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کے اس پروجیکٹ پر کافی لاگت آئی ہوگی۔
انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاں اس پر کافی لاگت آئی، خاص طور پر جب میں خود اس میں سرمایہ کاری کررہا تھا۔ جب میں نے شو پر کام شروع کیا تو اس وقت 100 سے زائد افراد ہمارے ساتھ کام کررہے تھے۔ میں نے ایسے برانڈز سے رابطہ کیا جو بچوں کے لیے خصوصی مواد بناتے ہیں لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے پاس اس طرح کا شو بنانے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔
’اس دوران ایک ایسا وقت آیا جب میں کافی مایوسی محسوس کررہا تھا لیکن پھر میری اہلیہ ٹینا نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے خود اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ٹینا نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے پیسے لےکر کہاں جائیں گے؟ کل کس نے دیکھا ہے؟ یہ سن کر میں نے فیصلہ کیا کہ پکے دوست میں خود بناؤں گا‘۔
بلال مقصود کے ذہن میں پہلے ہی اس شو چلانے کے لیے عملہ موجود تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس شو کی ہدایت کاری کے لیے میرے ذہن میں ہمیشہ سے عمر عادل کا نام تھا۔ وہ اور ان کی اہلیہ بینش عمر اکثر بچوں سے متعلق مواد بناتے رہے ہیں‘۔
البتہ ان پتلیوں کے لیے آوازوں کی تلاش ایک سخت مرحلہ ثابت ہوا۔
بلال مقصود نے کہا کہ ’میں اپنے شو کے لیے وہ روایتی آوازیں نہیں چاہتا تھا جو ہم عمومی طور پر بچوں کے پروگرامز میں سنتے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ ان پتلیوں کی آوازیں ایسی ہونی چاہیے کہ جیسے عام لوگ آپس میں گفتگو کررہے ہوں۔ میں نے بہت سے آڈیشنز کیے لیکن مجھے کوئی نہیں ملا اور جب مجھے لگ رہا تھا کہ پکے دوست بنانے کا میرا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تب ایک دن مجھے میرے دوست نے مشورہ دیا کہ میں اس کے بھائی عثمان شیخ کا آڈیشن لوں۔
’عثمان آیا اور اس نے جگا نامی پتلی اٹھائی اور پھر نہایت بہترین انداز میں پنجابی، اردو اور انگریزی میں باتیں کرنے لگا‘۔
دیگر سفارشات پر غور کرتے ہوئے انہوں نے بذاتِ خود اپنے شو کے لیے آوازوں کو چنا جن میں شاہ زین عثمان، احسن خان، عثمان شیخ، عمر عادل اور علیزے جعفر شامل ہیں۔
’علیزے میری بھانجی ہے اور وہ بجیا کی نقل کرنے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہمارے خاندان کی اسٹینڈ اپ کامیڈین رہی ہے‘، بلال مقصود نے اپنی مرحوم پھپھو اور معروف پلے رائٹر فاطمہ ثریا بجیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ ’میں نے علیزے سے کہا کہ وہ بجو کی نقل اتارے۔ علیزے نے پہلے تو کہا کہ وہ ایسا نہیں کرپائے گی لیکن جب وہ ورکشاپ میں آئی تو وہ اس نے خود کو اس کام کے لیے موزوں ثابت کیا، بعدازاں اس کردار کو ہم نے بجو کا نام دیا۔ اس پروجیکٹ کی اہم بات یہ ہے کہ جو بھی اس میں شامل ہوا، سب نے اسے اپنا پروجیکٹ سمجھ کر لگن سے کام کیا۔ کسی نے بھی اسے ملازمت کے طور پر نہیں لیا۔ سب نے اپنا مکمل اِن پٹ دیا اور بہترین کام پیش کیا‘۔
انہوں نے مجھے اپنے فون پر ورکشاپ کی ویڈیو بھی دکھائی جہاں پتلی نچانے والے ہاتھ میں پتلیاں لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کررہے ہیں۔ کرداروں کے لیے مختص اپنی آوازوں میں وہ قہقہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کی گفتگو کافی مذاحیہ ہے۔
بلال نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’کہا جاتا ہے کہ کٹھ پتلی، اسے نچانے والے کو خود منتخب کرتی ہے۔ پتلیوں کے ساتھ ہر کوئی کھیلتا ہے لیکن اچانک ایک شخص کے ہاتھ میں جاتے ہی اس پتلی میں جان پڑ جاتی ہے! یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک دفعہ جب میں نے پتلیوں کے پیچھے آوازوں کا انتخاب کرلیا تو پھر ہر پتلی کی شخصیت کو نظر میں رکھتے ہوئے اسکرپٹ لکھنا اور گانے بنانا میرے لیے آسان ہوگیا‘۔
انہوں نے اپنے مختلف کرداروں کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’مثال کے طور پر مجھے پتا تھا کہ میرال کے کردار کو حروفِ تہجی والے گانے میں شامل کرنا ہے کیونکہ وہ سب جانتی ہے اور اگر کسی کو ہفتے میں دنوں کے نام تک نہیں یاد ہوسکتے تو وہ طفیل کا کردار ہوسکتا ہے‘۔
پھر باری آئی پکے دوست کے لیے بلال مقصود کے گانوں کی۔
بلال کا کہنا تھا کہ’میں نے شروع سے آخر تک کمپوزیشنز، راگ اور دھنیں بنائیں اور انہیں پیانو پر بجایا۔ پھر میں نے احسن پرویز کو گانے دیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ وہ جدید دور کی موسیقی کی بہت اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ اس کمپوزیشن کو بچوں کے لیے نظموں کے بجائے گانوں کے طور پر لیں۔ میں چاہتا تھا کہ والدین بھی یہ گانے سن سکیں’۔
ہم نے بلال مقصود سے سوال کیا کہ اب جبکہ اس پروگرام کے اسکٹس اور گانوں کا پہلا سلسلہ یوٹیوب پر جاری کیا جا چکا ہے تو کیا وہ دوسرے سلسلے پر کام کررہے ہیں؟ ’انہوں نے کہا کہ ’بالکل میں گانے بنانے پر کام کررہا ہوں‘۔ کیا وہ پکے دوست پر ملنے والے ردعمل سے مطمئن ہیں؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بےانتہا مثبت ردعمل سامنے آیا‘۔ مزید کہا کہ ’مجھے والدین اور اساتذہ کی جانب سے جذباتی پیغامات موصول ہوتے ہیں جوکہ بچوں کے لیے اردو میں مواد بنانے پر بہت خوش ہیں۔ اس طرح کے ردِعمل سے مجھے خوشی ہوئی کیونکہ یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کی وجہ سے میں نے یہ شو تخلیق کیا۔
’میری اسکرپٹ میں اخلاقی پیغامات ہوتے ہیں جو میں بچوں تک پہنچانا چاہتا ہوں لیکن سب سے اہم بات جو میں چاہتا تھا کہ بچوں کو اردو زبان میں معیاری مواد فراہم کیا جائے‘۔
تو کیا وہ اپنا مقصد حاصل کرپائے؟ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’ابھی نہیں لیکن میں اس حوالے سے کوششیں کررہا ہوں۔ ایسی چیزوں میں وقت لگتا ہے۔ لوگوں کی چینل میں دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے مجھے باقاعدگی سے مواد اپ لوڈ کرتے رہنا ہوگا۔
’یہی وجہ ہے کہ میں نے وقفے وقفے سے یوٹیوب پر مختصر ویڈیوز (شارٹس) جاری کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان مختصر ویڈیوز کی آؤٹ ڈور شوٹنگ ہوتی ہے تاکہ دیکھنے والے اسے سیزن کا حصہ نہ سمجھیں کیونکہ سیزن کی شوٹنگ سیٹ پر کی جاتی ہے۔ اس وقت میری ترجیح اسکٹس کا نیا سلسلہ ریلیز کرنا ہے اور اگر مجھے ویوز زیادہ ملتے ہیں تو اس سے میری حوصلہ افزائی ہوگی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ بچوں کے لیے مواد پر ویوز آہستہ آہستہ ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کمائی بھی کم ہوتی ہے۔ جیسے ہی آپ یوٹیوب پر یہ بتاتے ہیں کہ آپ جو مواد اپ لوڈ کر رہے ہیں وہ بچوں کے لیے ہے تو ویڈیوز میں رکھے جانے والے اشتہارات محدود ہوجاتے ہیں‘۔
بغیر کسی مالی معاونت کے پکے دوست لانچ کرنے میں شاید ذاتی طور پر بلال مقصود کے اخراجات زیادہ ہوئے ہوں لیکن کیا کسی اسپانسر کی مداخلت کے بغیر بنایا گیا شو زیادہ اچھا ہوگا؟
بلال مقصود نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جی بالکل، ایک بار شو کے تیار ہونے کے بعد، میں نے اسے چند ممکنہ اسپانسرز کو دکھایا اور اسے دیکھ کر وہ سب اس منصوبے کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ ان سب کے پاس کچھ مشورے بھی تھے کہ کچھ لطیفوں کو کیسے حذف کیا جاسکتا ہے، یہ سن کر میں فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ان ہی جھنجھٹوں میں دوبارہ نہیں پڑنا چاہتا جن کا مجھے ماضی میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں انہیں صرف یہ دکھا رہا ہوں اور وہ اسے خرید نہیں سکتے اور میں یقینی طور پر کوئی تبدیلی بھی نہیں کروں گا۔‘
تاہم بلال مقصود اسپانسرز کے ساتھ بھی کام کررہے ہیں، خاص طور پر اردو کی وہ نظمیں جو وہ انگلش بسکٹ مینوفیکچررز لمیٹڈ (ای بی ایم) گروپ کے لیے تخلیق کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس پروجیکٹ کا حصہ بن کر واقعی لطف اندوز ہوا۔ یہ ایک بہت اچھا پروجیکٹ ہے اور جب میں پکے دوست کی منصوبہ بندی کررہا تھا تب مجھے اس کی پیشکش کی گئی‘۔
حال ہی میں ان کی بنائی ہوئی نرسری کی نظم کو بھارتی سوشل میڈیا پیچ نے کاپی کرلیا جس کی نشاندہی انہوں نے انسٹاگرام میں اپنے پوسٹ کے ذریعے بھی کی۔ ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ اس حوالے سے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے خلاف کاپی رائٹ کا دعویٰ نہ کیا جا سکے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کی ہیں۔ ایک طرح سے میرے نزدیک یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ اس طرح اب اس نظم کو اور زیادہ بچے سنیں گے لیکن یہ پھر بھی مایوس کن ہے‘۔
اسٹرِنگز سے علیحدگی کے بعد بلال مقصود مسلسل اپنے سولو سنگلز بھی جاری کررہے ہیں۔ ہن نے ان سے سوال کیا کہ کیا سنگلز کا یہ سلسلہ جاری رہے گا یا پھر وہ اپنا سارا وقت اور توانائی پکے دوست پر صَرف کریں گے؟
بلال مقصود مزید کہتے ہیں کہ ’میں ہمیشہ گانے بنانے پر کام کرتا رہوں گا۔ میں ایک نغمہ نگار ہوں اور جب بھی میرا دل ہوگا میں گانا ریکارڈ کروں گا اور اسے ریلیز کروں گا۔ اگرچہ اس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر میں واقعی میں اپنے موسیقی کے کریئر کی طرف اتنی توجہ نہیں دینا چاہتا‘۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اسٹرِنگز کو یاد کرتے ہیں؟ انہوں نے کچھ لمحوں کے لیے سوچا اور کہا کہ ’نہیں کیونکہ یاد آنے سے تاثر یہ جائے گا کہ میں ابھی جو کچھ کررہا ہوں، میں اس سے ناخوش ہوں۔ میں اس وقت واقعی بہت خوش ہوں۔ بچوں کے لیے اس مواد کی تخلیق نے مجھے نئی توانائی بخشی ہے۔ یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے اور اس میں دریافت کرنے کے لیے بہت کچھ ہے‘۔
میں نے ان سے حالیہ حج کے بارے میں بھی بات کی کہ اس حج نے انہیں کیسے بدلا؟ بلال مقصود نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میں زیادہ بدل گیا ہوں۔ میرا ہمیشہ خدا کے ساتھ بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ تاہم میں جاننا چاہتا تھا کہ جب آپ گھر میں اتنی ہی لگن سے نماز پڑھ سکتے ہیں تو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔
بلال بتاتے ہیں کہ ’ایک بار جب میں وہاں گیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہاں کوئی مافوق الفطرت چیز ہے۔ تیسری بار میں نے جب طواف کیا تو میں پرجوش تھا۔ چوتھی اور آخری بار میں نے خود سے سوال کیا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی اہم چیز کو کھویا ہوا تھا‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں نے حج پر دعا کی تھی کہ پکے دوست اچھا چلے اور میری زندگی کو نئی سمت دے‘۔ اور اب وہ اس نئی سمت کی طرف گامزن ہیں۔ ان تمام برسوں میں جب سے میں بلال کو جانتی ہوں وہ ہمیشہ سے اپنی راہ خود تلاش کرتے ہیں اور ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو انہیں صحیح لگتا ہے اور وہ زمانے کی دوڑ کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں۔
شاید ان کی دعائیں قبول ہوگئی ہیں اور انہوں نے اپنے لیے ایک نیا جنون ڈھونڈ لیا ہے۔
یہ مضمون 8 اکتوبر 2023ء کو ڈان آئیکون میں شائع ہوا۔
ملیحہ رحمان فیشن اور لائف اسٹائل جرنلسٹ ہیں، اور لکھنے سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: maliharehman@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔