نقطہ نظر

’کیا معلوم یہ مضمون بھی مصنوعی ذہانت نے ہی لکھا ہو‘

کیا پتا میری اگلی کتاب بھی میں نہ لکھوں بلکہ ایک مشین لکھے اور شاید آپ کو فرق بھی سمجھ نہ آئے۔ کیا معلوم یہ مضمون جو ابھی آپ پڑھ رہے ہیں وہ بھی مصنوعی ذہانت نے ہی لکھا ہو۔

گزشتہ ہفتے سامنے آنے والی ایک خبر نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ خبر کچھ یوں تھی کہ دی اٹلانٹک کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 83 ہزار کتابوں کو ان کے مصنفین کی اجازت کے بغیر مصنوعی ذہانت کو تربیت دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔

یہ کتابیں غیرقانونی ویب سائٹس سے چرائی گئی ہیں جوکہ ان لوگوں کی توہین کے زمرے میں آتا ہے جنہوں نے اپنے ناولز، سوانح عمری، شاعری اور نان فکشن کتابوں پر برسوں کام کیا۔ میٹا، بلومبرگ اور ممکنہ طور پر اوپن اے آئی (چیٹ جی پی ٹی کے تخلیق کار) جیسی کمپنیوں نے اپنے اے آئی سسٹمز کو لکھنے کا انداز سکھانے کے لیے ایلف شفق یا جے کے راؤلنگ جیسے ممتاز مصنفین کے تحریری مواد کا استعمال کیا ہے۔

جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی، دنیا بھر کے مصنفین نے ڈیٹا بیس کی جانچ کی کہ کہیں اس میں ان کی کتاب تو شامل نہیں۔ میں جن جن مصنفین کو جانتی ہوں، ان سب نے فیس بک یا ٹوئٹر پر بتایا کہ ان کی کتابیں بھی اس ڈیٹا بیس میں شامل ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے میں نے اپنا نام بھی تلاش کیا تو میرا ناول ’بیفور شی سلیپس‘ بھی غیرقانونی طور پر ڈاؤن لوڈ کرکے ڈیٹا بیس میں شامل کیا گیا تھا۔ یعنی میرے کام کو صرف اس لیے چرایا گیا تھا تاکہ مشین وہ کام کرے جو میں کرتی ہوں۔

میرے دوست جو اسکولز اور یونیورسٹیز میں پڑھاتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ طلبہ مضامین اور دیگر اسائنمنٹس کے لیے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک میں تو قابلِ قبول ہے جہاں طلبہ کو اکثر اچھی انگریزی میں لکھنے کو کہا جاتا ہے پھر چاہے یہ ان کی دوسری یا تیسری زبان ہی کیوں نہ ہو۔ صرف اس ڈر سے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں طلبہ چیٹ جی پی ٹی کی مدد حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہ قابل ہیں اور انہیں انگریزی پر عبور حاصل ہے۔

یہ پاکستان کے دفاتر میں بھی ہورہا ہے جہاں ملازمین بہترین انگریزی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے ریزیومے، رپورٹس، پریزنٹیشن اور مارکیٹنگ ڈیکس بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دستاویز جو بظاہر پروفیشنل شخص کے ہاتھوں سے بنے ہوئے لگتے ہیں، اس میں انسان کی حقیقی مہارت شامل نہیں ہوتی۔

ذرا سوچیں کہ ان ایک لاکھ 83 ہزار کتابوں کو تیار کرنے میں نہ جانے کتنے گھنٹوں کی محنت لگی ہوگی۔ ہر ایک کتاب کو تیار کرنے میں کتنا مشاہدہ، انفرادی تجربہ اور تعلیم کا استعمال ہوا ہوگا۔ ان لوگوں کو ایجنٹس، ایڈیٹرز اور ناشر تلاش کرنے میں کتنے سال لگے ہوں گے۔ لکھاریوں کا دیگر مصنفین سے کتنا مقابلہ رہا ہوگا کہ انہیں ایڈوانس اور رائلٹی کی مد میں کتنی کم ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ بات مشہور ہے اور حقیقت بھی کہ بہت کم ایسے لکھاری ہیں جن کے لیے لکھنا ان کا ذریعہِ معاش ہے۔ لیکن پھر بھی مصنفین ان حقائق کے باوجود لکھتے ہیں۔ یہ ان کا جذبہ اور تحریر سے محبت ہے جس کی وجہ سے وہ قلم اٹھانے سے نہیں رکتے۔

اس حوالے سے میں نے چھوٹا سا تجربہ کیا۔ میں نے چیٹ جی پی ٹی پر لاگ ان کیا اور اس سے کہا سے وہ مجھے جے کے راؤلنگ کے اندازِ تحریر میں 80 ہزار الفاظ پر مشتمل پاکستانی لڑکی پر ایک ناول لکھ کر دے جسے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک جادوگر ہے لیکن سب اس پر چڑیل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ مشین نے فوری طور پر مجھے جواب دیا اور وہ جواب کچھ یوں تھا ’80 ہزار الفاظ پر مشتمل ناول لکھنا ایک پیچیدہ اور وقت طلب کام ہے جس کے لیے ایک مکمل نئی کہانی اور دنیا تشکیل دینی ہوگی جوکہ ایک سوال کے جواب میں نہیں مل سکتا۔ اس کے علاوہ میں جے کے راؤلنگ جیسے کاپی رائٹ رکھنے والی مصنفہ کے طرزِ تحریر کی تقلید نہیں کرسکتا‘۔

پھر اس نے کہا کہ ’تاہم میں آپ کو ایسا ناول خود لکھنے کے لیے خیالات پیش کرسکتا ہوں اور آپ کی رہنمائی بھی کرسکتا ہوں‘۔

چیٹ جی پی ٹی نے تجویز دی کہ میں اپنی کتاب کا نام ’دی انچانٹڈ ویل آف لاہور‘ رکھوں۔ ناول کا پہلا باب ’اے میجیکل جرنی‘ میں کہانی کی ترتیب اور مرکزی کردار کو کچھ یوں متعارف کروانا چاہیے ’لاہور کی ہلچل سے بھرپور گلیوں میں، کی رنگینیوں اور خوشبودار مسالوں کے بازار کے درمیان، آمنہ نام کی ایک لڑکی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے پڑوس کے دیگر بچوں سے خود کو مختلف محسوس کرتی تھی۔ اس کے سیاہ بال چاندی کی طرح چمکتے تھے، اور اس کی آنکھوں میں ایک گہری اور پراسرار سی چمک تھی‘۔

’پروفیسر راشد‘ کی جانب سے آنے والے ایک پُراسرار خط میں آمنہ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ڈائگن بازار آئے جہاں وہ ایک ایسی دنیا کے بارے میں جانے گی جو ’عام دنیا سے بہت مختلف‘ ہے۔ اگلے 5 ابواب میں وہ ایک ایسی جادوئی جگہ جاتی ہے جہاں ’جادو کی چَھڑیاں، جادوئی شربت اور جادوئی مخلوقات‘ ہوتی ہیں۔ وہ وہاں دیگر جادوگروں سے بھی ملتی ہے اور انہیں اپنا دوست بنا لیتی ہے۔ انہیں تعصب اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ ’جادو کو اچھائی کے لیے بھی استعمال‘ کیا جاسکتا ہے۔ آمنہ اور اس کے دوستوں کا سامنا ایک طاقتور مگر شیطانی جادوگر سے ہوتا ہے اور ان کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوتی ہے۔ اختتام میں بچوں کی جیت ہوتی ہے اور جادوئی اور عام دونوں دنیاؤں میں امن بحال ہوجاتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی نے کہانی کے اختتام میں یہ بھی شامل کیا کہ ’یہ صرف ایک مختصر سا خاکہ اور کہانی کی شروعات ہے۔ 80 ہزار الفاظ پر مشتمل ناول لکھنے کے لیے آپ کو ان خیالات کو مزید تشکیل دینا ہوگا اور کرداروں، ذیلی پلاٹ اور مزید تفصیلات شامل کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ایک بھرپور اور دنیا تخلیق کی جاسکے‘۔

جے کے راؤلنگ کی طرزِ تحریر سے واقفیت کے بغیر کوئی بھی مشین اس طرح کا خلاصہ پیش نہیں کرسکتی تھی۔ یہاں واقفیت سے میرا مطلب ہے کہ اس کے ڈیٹا بیس میں ہیری پورٹر کی کتابیں بھی شامل کی گئی ہیں اور انہیں انفرادی الفاظ اور جملوں میں توڑ دیا گیا ہے۔ اس نے ان الفاظ اور جملوں کا تجزیہ کیا ہے پھر اپنی کہانیاں لکھنے کے لیے ملتے جلتے الفاظ اور جملوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ نہ یہ اصلی ہے اور نہ ہی یہ تحریر بہت اچھی ہے۔ لیکن مشین کو کاپی رائٹ کو نظر انداز کرنے اور اتنی لمبی کتاب لکھنے کے لیے صرف ایک کمانڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ مت سمجھیے گا کہ یہ سب مفت میں ہوجاتا ہے، ظاہر ہے اس کی ایک قیمت ہوتی ہے۔

مصنفین میٹا اور دیگر اے آئی تخلیق کاروں کو خطوط اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے ان سے لڑنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنی کتابوں کو اس طرح استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے کیونکہ ایک بار سیکھ لینے کے بعد مشین اسے بھول نہیں سکتی۔

ایمازون پہلے سے ہی اے آئی کی مدد سے تیار کردہ آن لائن فروخت ہونے والی ہزاروں کتابوں پر پابندی لگانے کے لیے کام کررہا ہے، ہولی ووڈ میں اداکاروں اور لکھاریوں نے اپنے کام کو اے آئی سے بچانے کے لیے 148 دن کی ہڑتال کی جو حال ہی میں ختم ہوئی ہے۔ یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ انسانوں اور مشینوں کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔

کیا پتا میری اگلی کتاب بھی میں نہ لکھوں بلکہ ایک مشین لکھے اور شاید آپ کو فرق بھی سمجھ نہ آئے۔ کیا معلوم یہ مضمون جو ابھی آپ پڑھ رہے ہیں وہ بھی مصنوعی ذہانت نے ہی لکھا ہو۔


یہ مضمون 7 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بینا شاہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔