پاکستان

نگران وزیرخارجہ کی تبت میں افغان ہم منصب سے ملاقات، علاقائی امن کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال

تبت میں ٹرانس-ہمالیائی فورم برائے تعاون کے دو روزہ اجلاس کے دوران جلیل عباس جیلانی نے دو طرفہ تعلقات مضبوط کرنے کا عزم دہرایا، دفترخارجہ

نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی سے تبت میں ملاقات کی جہاں خطے کے امن اور استحکام کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی خود مختار تبت میں 4 سے 5 اکتوبر تک منعقد ہونے والے ٹرانس-ہمالیائی فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں شرکت کے لیے دو روزہ دورے پر چین میں موجود ہیں۔

ٹرانس-ہمالیائی فورم کی بنیاد 2018 میں رکھی گئی تھی، جس کا مقصد خطے کے ممالک میں جغرافیائی روابط، ماحولیاتی بچاؤ اور ثقافتی تعلقات مضبوط کرنا ہے۔

دفترخارجہ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان کے مطابق نگراز وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے افغان عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور اس دوران جلیل عباس جیلانی نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیرخارجہ نے زور دیا کہ خطے کے امن اور استحکام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے باہمی تعاون کے تحت حل کرلینی چاہئیں۔

دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں سمیت ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے انخلا کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی ہوئی ہے اور واضح کیا گیا ہے اس کے بعد مذکورہ افراد کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

اسلام آباد میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا، جس میں آرمی چیف سمیت اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی تھی۔

ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا، سرحد پر آمدورفت کا طریقہ کار ایک دستاویز کی صورت میں منظم کیا جائے گا، جس میں سرحد سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزے پر دی جائے گی اور غیر قانونی غیر ملکی افراد کی تجارت اور پراپرٹی کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جائے گی۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا تھا کہ 10 اکتوبر سے لے کر 31 اکتوبر تک افغان شہریوں کے لیے ای تذکرہ یا الیکٹرانک تذکرہ ہے، یہ کمپیوٹرازڈ ہو گا، کاغذی تذکرہ نہیں چلے گا، ہم 10 سے 31 اکتوبر تک اس کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہو گی۔

جس کے بعد افغانستان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ردعمل میں پاکستان کے فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور پاکستانی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

گزشتہ روز پاک-افغان چمن بارڈر میں باب دوستی پر افغان سیکیورٹی اہلکار کی فائرنگ سے دو پاکستانی جاں بحق اور ایک بچہ زخمی ہوگیا تھا۔

دوسری جانب آج اسلام آباد میں ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے خلاف نہیں بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغان مہاجرین کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، پاکستان لاکھوں مہاجرین کی کھلے دل سے دہائیوں سے میزبانی کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغان مہاجرین کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی مہاجرین کے خلاف ہے، پاکستان افغان مہاجرین سمیت تمام غیر قانونی رہائش پذیر باشندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور یہ کارروائی کسی خاص شہریت کے خلاف نہیں ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تبت میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر پاک۔افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوگی، دوطرفہ معاملات پر خصوصی گفتگو کی جائے گی۔

دوسری جانب کئی حلقوں کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً 13 لاکھ افغان پاکستان میں رجسٹرڈ مہاجرین ہیں جبکہ 8 لاکھ 80 ہزار غیر رجسٹرد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، تاہم نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ پولیس پر افغان مہاجرین کے خلاف بلاتفریق ’بے رحمانہ‘ آپریشن کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

اس نئی پالیسی کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صرف اتنا کہا کہ فرار ہونے یا بیرون ملک دوبارہ آباد ہونے کے خواہش مند افغان شہریوں کی آبادکاری میں پاکستان ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بھی اس ڈیڈ لائن کی مخالفت کی ہے، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے ایک عہدیدار قیصر خان آفریدی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کو بتایا کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں عالمی تحفظ کے خواہاں افراد کی نگرانی اور ریکارڈ کے اندراج کے لیے ایک نظام وضع کرنے اور ’مخصوص خطرات‘ سے نمٹنے کے لیے ’یو این ایچ سی آر‘ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔

صارفین کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی فی یونٹ مزید ایک روپے 71 پیسے مہنگی

مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، 2 فلسطینی جاں بحق

الیکشن کمیشن کا چیف سیکریٹری سندھ، بلوچستان کو ’گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی‘ پر خط