نقطہ نظر

ذہنی بیماریوں پر بھی جسمانی عارضے کی طرح ہی توجہ دیں

ذہنی مریضوں کی بحالی اور بہتری میں سب سے اہم کردار ان کے خاندان کا ہوتا ہے۔ یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے تین ٹائم کا کھانا ضروری ہوتا ہے۔

یہ تحریر آج 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کے عالمی دن کی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔


اکثر اوقات ہم اپنے اردگرد موجود مختلف لوگوں کے بارے میں یہ آرا قائم کرلیتے ہیں کہ ’اس کا تو لگتا ہے دماغ خراب ہے‘، ’یہ تو بالکل پاگل ہے‘، ’اس سے بات کیا کروں اس کا تو ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے‘ یا ’یہ تو ہے ہی نفسیاتی‘۔ لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ جو لوگ حقیقت میں کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں، ان پر اور ان کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے؟

پاکستان میں جاری ہوش ربا مہنگائی، بنیادی سہولیات کے فقدان اور سیاسی بحران کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور ذہنی دباؤ کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔


قومی وزارت صحت کی رپورٹ (سال 2021ء)


سال 2021ء میں وزارت قومی صحت نے ایک رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق، پاکستان میں ذہنی امراض کی سالانہ شرح 12.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

اسی رپورٹ میں ڈپریشن کی سالانہ شرح 3.23 فیصد جبکہ انزائٹی ڈس آرڈر کی شرح 3.17 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

اس کے علاوہ سال 2021ء میں ہمارے ملک میں شیزوفرینیا کے مریضوں کی سالانہ شرح 0.24 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان میں 1998ء کے بعد سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی بیماریوں میں بدقسمتی سے مریض پر مختلف، غیر ضروری اور غیر ارادی خیالات حاوی ہوجاتے ہیں جو اسے ذہنی طور پر تھکا دیتے ہیں اور وہ ان سوچوں کی وجہ سے مفلوج ہوکر اپنے معمولاتِ زندگی سے آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا جاتا ہے۔


بائی پولر ڈس آرڈر اور علاج


بائی پولر ڈس آرڈر ہمارے ملک میں انتہائی عام ہے۔ قریباً ہر 100 میں سے ایک شخص اس ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ اس بیماری میں مریض جب ایک پول میں ہوتا ہے تو اس میں اداسی کی علامت بہت عام ہوتی ہے جبکہ دوسرے پول میں مریض شدت پسند ہوجاتا ہے اور اس کا ڈپریشن بڑھ کر کسی مینیا ہائپر ایکٹویٹی (وہ ذہنی کیفیت جب مریض کے جذبات شدت اختیار کرلیتے ہیں) کی علامات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق اگر خاندان میں کسی کو یہ ڈس آرڈر ہو تو آنے والی نسلوں میں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ جن افراد کے خاندان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد زیادہ ہوتے ہیں وہاں بائی پولر ڈس آرڈر زیادہ پایا جاتا ہے۔

معاشرتی ناہمواری کا شکار لوگ یا جن کی شخصیت میں تربیت کی کوئی کمی رہ گئی ہو، ایسے لوگ بھی اس ذہنی عارضے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

بائی پولر ڈس آرڈر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسرہ گوہر نے کہا کہ ’اس بیماری میں مزاج میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ اس ذہنی بیماری کا جینیاتی کردار تو ہوسکتا ہے مگر اس بیماری کا تعلق زیادہ تر اس ناسازگار ماحول سے ہوتا ہے جس میں ایک بچے کی تربیت ہوتی ہے۔ یعنی بائی پولر ڈس آرڈر کے پیچھے بچپن کی تاریخ ہوتی ہے جس میں کسی حادثے، مشکل حالات یا پریشانیوں کی وجہ سے یہ بیماری نشوونما پاتی ہے‘۔

بائی پولر ڈس آرڈر سننے میں تو سنگین بیماری لگتی ہے لیکن جلد تشخیص و علاج سے مریض مکمل طور پر معمول کی زندگی کی طرف واپس آجاتا ہے۔ اس کا علاج نہ صرف ادویات سے کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے تھراپی بھی بہت اہم ہے اور تھراپی میں خاندان کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔


کہیں آپ انزائٹی ڈس آرڈر کا شکار تو نہیں؟


ہمارے ارد گرد ایسے بہت لوگ ہیں جو بہت صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن یہ صفائی ستھرائی اگر ان کی سوچ پر حاوی ہوجائے تو اس کا نتیجہ او سی ڈی یعنی اوبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈر (Obsessive compulsive disorder) یا او سی ڈی کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔

ڈاکٹر یاسرہ گوہر گیلانی نے اس ڈس آرڈر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ انزائٹی ڈس آرڈر ہے جس میں مریض کو بار بار ایک ہی سوچ آتی ہے اور مریض پوری کوشش کے باوجود اس سوچ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا۔ کئی دفعہ وہ بالکل غیر ارادی سوچ ہوتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر مریض اس سوچ سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا‘۔

انہوں نے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر ہم سب صفائی ستھرائی کا دھیان رکھتے ہیں تو ہم مطمئن ہوجاتے ہیں لیکن اس بیماری میں اطمینان نہیں ہوتا۔ ہر بار یہی لگتا ہے کہ جتنی بھی کوشش کرلیں میل نہیں جائے گا۔ اگر کپڑوں پر کسی نے ہاتھ لگا لیا تو وہ میلے ہوگئے جس کی وجہ سے مریض بہت زیادہ ذہنی بوجھ محسوس کرتا ہے۔ اس کی سماجی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں کیونکہ وہ جہاں بھی جاتا ہے وہم اور گندگی کا خوف اس کے ساتھ جاتا ہے۔ اس لیے وہ مسلسل ہاتھ دھوتا ہے، زیادہ نہاتا ہے اور پانی کا بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔

اس کے علاوہ بہت زیادہ سوچنے کی وجہ سے اس ڈس آرڈر کا شکار مریض روتے بھی ہیں کیونکہ بہت زیادہ سوچنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ سوچیں اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہیں کہ ان کے پورے دن کا وقت انہی سوچوں میں گزرتا ہے۔ ان سوچوں کی وجہ مریض اتنا غیر مطمئن ہوتا ہے کہ وہ بار بار جاکر کبھی دروازہ چیک کرتا ہے، چولہا دیکھتا ہے، بار بار ہاتھ دھوتا ہے، اس طرح وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت تھک جاتا ہے۔

یہ ڈس آرڈر اچانک نہیں ہوتا یہ ایک پیٹرن ہے اور یہ پیٹرن بچپن سے بن رہا ہوتا ہے جو ایک دم او سی ڈی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ کووڈ میں بہت سے لوگ او سی ڈی میں مبتلا ہوئے کیونکہ اس میں لوگ مسلسل ہاتھ دھوتے تھے جبکہ بعد میں ہونے والی تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ کورونا وائرس کے دوران دنیا بھر میں مختلف عمر کے لوگوں میں او سی ڈی کی علامات دیکھی گئی تھیں۔

او سی ڈی کا علاج اور تھراپی

او سی ڈی کے علاج کے حوالے سے ڈاکٹر عروسہ طالب کا کہنا ہے کہ او سی ڈی بہت تکلیف دہ مرض ہے جبکہ اس کا علاج بھی طویل عرصے چلتا ہے تاہم علاج سے ہی بہترین حل نکلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مریض کو اس ڈس آرڈر کے لیے ادویات دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تھراپی بھی کی جاتی ہے جس میں مریض کو سینسٹائز کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو کس طرح روکے اور اس حوالے سے ٹریننگ دی جاتی ہے جس بنا پر یہ عمل بتدریج چلتا ہے۔


سایہ ہے یا شیزوفیرنیا؟


ڈاکٹر یاسرہ گوہر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مریض کو کچھ ایسی غیبی آوازیں آتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ ان آوازوں کو حقیقت سمجھ کر ان پر ردعمل دیتا ہے۔ یہ مریض کے لیے بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ ایسی آوازیں زیادہ تر منفی ہوتی ہیں۔ ایسے میں مریض ان آوازوں سے باتیں کرنے لگتا ہے، وہ کبھی انہیں خاموش ہونے کا کہتا ہے کبھی چیخنے لگتا ہے اور وہ اپنے معمولاتِ زندگی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

آہستہ آہستہ مریض تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور خود پر توجہ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی صحت یا پھر صفائی کا خیال رکھنا چھوڑ دیتا ہے حتیٰ کہ جب یہ بیماری بڑھ جاتی ہے تو مریض کو اپنے ارد گرد کے ماحول کا ہوش نہیں رہتا کہ میں کس سے بات کررہا ہوں، میں کہاں ہوں اور میرے ساتھ کون ہے۔ یہ سنگین بیماری ہے۔ اگر اسے عام الفاظ میں بتایا جائے تو یہ سب سے خطرناک سائیکولوجیکل ڈس آرڈر ہے جسے شیزو فرینیا کہتے ہیں۔

شیزوفرینیا کا علاج کیسے ممکن ہے؟

ڈاکٹرعروسہ طالب کا کہنا ہے کہ اگر ایسے مریضوں کی جلد تشخیص ہوجاتی ہے اور ان کا بروقت علاج ہوجاتا ہے تو وہ بالکل عام زندگی گزارسکتے ہیں۔ اس بیماری کے لیے بھی بائیوسائیکو سوشل ماڈیول اختیار کیا جاتا ہے جس میں ضروری کردار ادویات کا ہے کیونکہ دوا تمام علامات کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ شیزوفرینیا زندگی کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے اور یہ بیماری مریض کو عام لوگوں کے ساتھ رہنے نہیں دیتی۔


پوسٹ ٹراماٹک اسٹریس ڈس آرڈر


ہم جب کسی ایسے حادثے سے گزرتے ہیں جیسے کسی پیارے کی اچانک موت یا آنکھوں کے سامنے قتل، کوئی ڈکیتی کی واردات یا کوئی زیادتی کا شکار ہو، ان حادثات کی وجہ سے ہمارا وجود ہل کر رہ جاتا ہے اور یہ ذہنی صحت کو بے تحاشا متاثر کرتا ہے۔

اس کے بعد اس حادثے کا خیال مسلسل ذہن میں رہتا ہے اور متاثرہ شخص ٹراما میں چلا جاتا ہے اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ پاکستان میں جب تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا، پھر حالیہ سیلاب اور آرمی پبلک اسکول کے بچوں پر ہونے والا سفاک حملہ، ان حادثات سے براہِ راست متاثر ہونے والے افراد نے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی نقصان اٹھایا جبکہ انہیں ٹی وی چینلز پر دیکھنے والے افراد اور میڈیا کے افراد بھی اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوئے۔ ٹراما ڈس آرڈر کے لیے بھی ماہرین نفسیات مسلسل تھراپی اور علاج تجویز کرتے ہیں۔


خواتین ذہنی طور پر غیر محفوظ کیوں ہیں؟


بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور اگر صحت اور معالجے کی سہولیات کی بات کی جائے تو وہ بھی انہیں میسر نہیں ہیں کیونکہ یہ اس کے مقابلے میں خاندان کے مرد کو مل جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی غیرمحفوظ ہیں اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ان کے لیے زیادہ ہوتا ہے۔

لڑکیاں بلوغت کی عمر میں پہنچتی ہیں تو ہارمونل تبدیلیوں سے نبردآزما ہوتی ہیں، اس وقت لڑکیاں سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ اسی طرح زندگی کے مختلف مراحل پر ان کو ہارمونل تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شادی ہوتی ہے تو جسم میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں اور جب بچے کی ولادت ہوجاتی ہے تو بہت زیادہ ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں۔

جب مینوپاز ہوتا ہے تب بھی ہارمونل تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ہر دس میں سے ایک خاتون کو ڈلیوری کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہوتا ہے جس بنا پر ایسی مائیں خود کو اور اپنے بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

ڈپریشن کی علامات دوران حمل ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں خاندان کی سپورٹ بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس وقت میں خواتین کا ساتھ دیں اور ماں اور بچے کی حفاظت یقینی بنائیں اور بچے کی نگرانی ضرور کریں۔


کیا ذہنی بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟


سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی بھی نفسیاتی بیماری کسی ایک وجہ سے نہیں ہوتی اور اس کے لیے ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم نفسیاتی بیماریوں کو سمجھیں۔ ذہنی امراض کا شکار مریض ہماری اور آپ کی طرح نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ لوگوں میں یہ امید اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جیسے دیگر بیماریاں قابلِ علاج ہیں اور طبی معاونت کے ساتھ آپ عام زندگی کی جانب لوٹ سکتے ہیں تو بالکل اسی طرح ذہنی امراض بھی توجہ طلب ہیں اور علاج اور تھراپی کے ذریعے متاثرہ افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

طبی معاونت حاصل کرنے کے بعد ان کی شادیاں ہوتی ہیں، بچے ہوتے ہیں اور وہ اپنی معاشی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ یہاں اہم یہ ہے کہ متاثرہ شخص اپنے مرض کو کتنی اچھی طرح جان لیتا ہے اور کتنی جلدی وہ اپنی علامات کو جان کر اپنے ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرلیتا ہے اور علاج کرواتا ہے۔ ان مریضوں کو کسی نہ کسی طرح اپنے ڈاکٹرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے کیونکہ ان مریضوں کی زندگی میں اس کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق سائیکو تھراپی بہترین ذریعہِ علاج ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے بہت سی تھراپیز سے مدد حاصل کی جاتی ہے جیسے کوگنیٹیو بیہیوئر تھراپی (Cognitive behavior therapy)، ان سائٹ تھراپی (Insight Therapy ) اور اسکیما تھراپی (Schema therapy) وغیرہ۔ ان تھراپیز سے نہ صرف مرض کی علامات کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ خاندان کو بھی آگاہی دی جاتی ہے۔

سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر عروسہ طالب کا کہنا ہے کہ ’جب ذہنی مریضوں کی حالت بہتر ہونے لگتی ہے تو ان کو لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہوگئے ہیں اور وہ اپنا علاج نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے علاج کے آغاز پر ہماری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ انہیں دو چیزیں بتادیں کہ اگرچہ مریض ٹریٹمنٹ کے دو تین ہفتوں میں ہی اپنے اندر بہتری دیکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن اس کے بعد علاج کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کیونکہ مریض تھراپی کو ردعمل کرنا شروع کردیتا ہے۔

’پہلے مرحلے میں ہم مرض کی علامات کو دوا سے کنٹرول کرتے ہیں۔ جب وہ کنٹرول ہوجاتی ہیں تو دوسرا مرحلہ فارماکولوجیکل تھراپی کا ہوتا ہے تاکہ مریض کو مزید ذہنی بیماری کے اٹیک سے بچایا جاسکے۔ تھراپی کا کردار بہت اہم ہے اور تجربے سے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جب مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے حوالے کردیتا ہے اور آپ کو اپنا مسیحا ماننا شروع کردیتا ہے تو اسے کھل کر آپ کی بات سمجھ آتی ہے۔ ایسے وہ ضرور آپ کی ہدایت پر عمل کرے گا اور تھراپی کو بھی جاری رکھے گا‘۔

ذہنی مریضوں کی بحالی اور بہتری میں سب سے اہم کردار ان کے خاندان کا ہوتا ہے۔ یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے تین ٹائم کا کھانا ضروری ہوتا ہے۔ جن مریضوں کا خاندان ان کی ذہنی بیماری کو سمجھتا ہے اور ان کا ساتھ دیتا ہے تو ایسے مریضوں کی صحت یابی اور بحالی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔


ذہنی علاج اور ادویات کے حوالے سے غلط فہمیاں


ذہنی بیماریوں کے علاج اور ادویات سے متعلق ہمارے معاشرے میں کافی شکوک و شہبات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کو ایسے سمجھیے کہ جب ہمارے جسم میں یا سر میں درد ہوتا ہے تو زیادہ تر لوگ ایک عام ملنے والی دوا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دیگر بیماریوں میں بھی بہت ساری عام استعمال کی ادویات لی جاتی ہیں، ان سب کے کوئی نہ کوئی مضر اثرات تو ہوتے ہیں لیکن وہ ہر شخص پر نہیں ہوتے۔

بالکل اسی طرح جو ادویات ذہنی امراض کے علاج کے لیے دی جاتی ہیں ان کے بھی سائیڈ افیکٹ ضرور ہیں تاہم جتنی وہ ادویات فائدہ مند ہوتی ہیں اس کے سامنے تو سائیڈ افیکٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ نفسیاتی علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات سے نہ ہی بہت نیند آتی ہے اور نہ ہی ذہن ماؤف ہوتا ہے۔

آج کے دور میں ہر مریض کی میڈیکل حالت، اس کی عمر اور اس کی پروفائل کو دیکھتے ہوئے معالج بہت محفوظ دوا تجوہز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب ذہنی مرض کا شکار کسی مریض کو مناسب تشخیص اور مناسب دوا دی جاتی ہے اور مریض دوا کے استعمال کو جاری رکھتے ہیں تو مرض کے خلاف ان کی قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔

جس طرح ہم اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، ذہنی امراض بھی اسی توجہ اور علاج کے مستحق ہیں۔

فہمیدہ یوسفی

فہمیدہ یوسفی سیاسی، عسکری اور دفاعی امور پر لکھتی ہیں۔ انسانی حقوق، ماحولیات اور صحت سے متعلق مسائل بھی ان کا موضوع ہیں۔ بلاگر سے ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ fahmidahyousfi@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔