پاکستان

نواز شریف کی وطن واپسی پر حکمت عملی سے متعلق قانونی رائے منقسم

وکلا کا خیال ہے، سابق وزیراعظم کو وطن واپس آکر سیدھا جیل جانا پڑے گا، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ موجود ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

سابق وزیراعظم و سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی متوقع وطن واپسی کا چرچا زبان زدعام ہے لیکن وہ وطن واپس آکر کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے، اس پر قانونی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وکلا کا خیال ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس آکر سیدھا جیل جانا پڑے گا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ان کے پاس اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ موجود ہے اور نواز شریف کو دوبارہ جیل جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

2019 میں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے 2 ججوں کے بینچ نے نواز شریف کو ابتدائی طور پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی، طبی بنیادوں پر اس مدت میں مشروط توسیع کی گنجائش موجود تھی۔

نواز شریف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے والے عدالتی احکامات کو بغور پڑھنے سے تمام جوابات مل سکتے ہیں۔

وہ بظاہر نواز شریف کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے جمع کرائے گئے اس حلف نامے کے متن کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 4 ہفتوں کے اندر یا جیسے ہی میرے ڈاکٹروں نے مجھے صحت مند اور پاکستان واپس سفر کرنے کے لیے فٹ قرار دیا تو میں قانون کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان واپس لوٹ جاؤں گا، اُن کے بھائی شہباز شریف نے بھی اسی طرح کا حلف نامہ جمع کرایا تھا۔

قبل ازیں، لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی ضمانت منظور کرلی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔

یہ دونوں فیصلے طبی بنیادوں پر کیے گئے، تاہم العزیزیہ کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ضمانت میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کیا جائے، ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ 2018 میں ہی ان کی سزاؤں کو معطل کر چکی ہے۔

لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری آفتاب احمد باجوہ نے گزشتہ روز بتایا کہ نواز شریف کو وطن واپسی پر دوبارہ جیل جانا پڑے گا کیونکہ وہ جیل سے بیرون ملک گئے تھے۔

آفتاب احمد باجوہ کے مطابق نواز شریف نہ صرف اشتہاری مجرم ہیں بلکہ ایک سزا یافتہ مجرم بھی ہیں، اور قانون میں کسی سزا یافتہ مجرم کو حفاظتی ضمانت دینے کی کوئی گنجائش یا نظیر نہیں ملتی، تاہم پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔

نواز شریف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ وطن واپسی سے چند روز قبل نواز شریف کی جانب سے حفاظتی ضمانت یا راہداری ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ درخواست جس میں 2 ججز پر مشتمل بینچ نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی وہ تاحال عدالت میں زیر التوا ہے اور ممکنہ طور پر متفرق درخواست کے ذریعے اسی بینچ سے رجوع کیا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلام آباد جا کر ہائی کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں عبوری حفاظتی ضمانت کی درخواست بھی دائر کی جا سکتی ہے، امید ہے کہ ہائی کورٹ نواز شریف کی پیشی کے بعد ان کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دے گی اور بعد ازاں طبی بنیادوں پر انہیں ضمانت دے گی۔

عثمان ڈار کا پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان، ’9 مئی حملوں کا مقصد آرمی چیف کو ہٹانا تھا‘

بہترین مہمان نوازی کی گئی، لگ رہا ہے بھارت نہیں اپنے ملک میں ہیں، بابر اعظم

سکھ رہنما کے قتل سے کافی پہلے را کے مغربی ممالک میں قدم جمانے کا انکشاف