دنیا

سکھ رہنما کے قتل سے کافی پہلے را کے مغربی ممالک میں قدم جمانے کا انکشاف

را نے 2008 کے بعد بتدریج مغربی ممالک میں اپنی رسائی کو بڑھایا، کینیڈا کے الزامات را پر مغربی ممالک کے اعتماد کو مشکل بنا سکتے ہیں، بھارتی عہدیدار

بھارت کی بیرونی انٹیلی جنس سروس اس کے پڑوسی ممالک پاکستان، سری لنکا اور نیپال میں ایک خوفناک دشمن تصور کی جاتی ہے جہاں ان سبھی نے اس پر سیاسی مداخلت اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث کالعدم گروہوں کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اب یہ معاملہ ایشیا سے نکل کر کینیڈا تک جا پہنچا ہے جہاں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ ماہ یہ الزام لگایا تھا کہ بھارتی حکومت کے ایجنٹس جون میں وینکوور کے مضافاتی علاقے میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں ملوث تھے اور اس الزام کے بعد دہلی کے خفیہ ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) پر پوری دنیا نے اپنی نظریں گاڑ دی ہیں۔

بھارت نے ان الزامات کی تردید کی اور را کے اسٹیشن چیف کو ملک بدر کرنے والے کینیڈا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس الزام کے ثبوت پیش کرے تاہم کینیڈا نے کہا کہ اس نے یہ ثبوت اتحادیوں کے ساتھ شیئر کیے ہیں البتہ انہیں عوامی سطح پر جاری نہیں کیا جائے گا۔

رائٹرز نے را سے واقف چار ریٹائرڈ اور دو حاضر سروس بھارتی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اہلکاروں سے بات کی جنہوں نے کہا کہ ایجنسی کو 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد زیادہ مضبوط بین الاقوامی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حساس معاملات پر بات چیت کرنے والے چار عہدیداروں نے کہا کہ را نے 2008 کے بعد بتدریج مغربی ممالک میں اپنی رسائی کو بڑھایا۔

ایک موجودہ عہدیدار نے کہا کہ ممبئی حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں سزا پانے والے امریکی شہری کی بھارت نے حوالگی کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے تحویل میں لینے میں ناکامی پر را نے مغربی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

ایک حاضر سروس اور ایک سابق اہلکار کے مطابق اپنے قریبی پڑوسی ممالک کے حوالے سے را کے پاس سگنل اور تکنیکی انٹیلی جنس کی اعلیٰ صلاحیتیں ہیں البتہ مغرب میں ایجنسی اپنی کارروائیوں کے لیے زیادہ تر انسانی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔

پانچ عہدیداروں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے قومی سلامتی کے دیگر اداروں کی طرح را کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے جہاں انہوں نے 2014 کے انتخابات کے بعد سے بھارت کی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت دی ہے اور مضبوط تشخص بنایا ہے۔

را کے سربراہ روی سنہا واحد حاضر سروس اہلکار ہیں جو ایجنسی سے عوامی طور پر وابستہ ہیں اور انہوں نے تبصرے کے حوالے سے درخواست کا جواب نہیں دیا، روی سنہا قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے ذریعے مودی کے دفتر کو رپورٹ کرتے ہیں اور اجیت ڈوول نے بھی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

تمام چھ اہلکاروں نے اس بات کی تردید کی کہ را ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور کہا کہ ایجنسی کے پاس ایسی کارروائیوں کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔

بھارتی انٹیلی جنس حکام اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ وینکوور کے واقعے کے نتیجے میں یہ خدشات بھی بڑھ گئے ہیں کہ را کی عالمی سطح پر نگرانی زیادہ بڑھ جائے گی۔

برطانیہ کی ہل یونیورسٹی میں بھارتی انٹیلی جنس کے ماہر دھیرج پرمیشا چایا نے کہا کہ موجودہ پیش رفت نے بلاشبہ را کے بارے میں عالمی سطح پر تجسس میں اضافہ کیا ہےرا کی سرگرمیوں کی زیادہ مغربی جانچ سے دہلی کے سیکیورٹی خدشات کو بھی قریب سے سمجھا جا سکتا ہے۔

چین کے ساتھ بڑھتے تناؤ کے پیش نظر مغربی ممالک نے دہلی کے ساتھ فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کو بڑھایا ہے اور واشنگٹن نے 2020 میں بھارت کے ساتھ حساس نقشہ سازی اور سیٹلائٹ ڈیٹا کے اشتراک پر اتفاق کیا تھا۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ مختصرا بات یہ کہ کینیڈا کا یہ دعویٰ مغربی ممالک کے لیے را پر اعتماد کو مشکل بنا سکتا ہے۔

جب سے ٹروڈو نے عوامی سطح پر بھارت پر الزامات لگائے ہیں تب سے کینیڈا اور بھارت کے سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں، بھارت نے کینیڈا کے شہریوں کو نئے ویزوں کا اجرا روک دیا ہے اور اوٹاوا سے اپنی سفارتی موجودگی کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ کینیڈا نے امریکا جیسے اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ بھارت کی مذمت میں مشترکہ بیان جاری کریں لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہا۔