مقبوضہ کشمیر بھارت کا جدید دور کا نوآبادیاتی منصوبہ ہے، پاکستان
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو اقوام متحدہ کی ڈی کالونائزیشن کمیٹی کے سامنے اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی یکطرفہ کارروائیوں کو جدید دور کے نوآبادیاتی منصوبہ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے پیر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں غیر ملکی قبضے سے آزادی پر ایک عام بحث کا آغاز کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے نوآبادیاتی ممالک اور لوگوں کو آزادی دینے کے اعلان کو منظور کیے جانے کے چھ دہائیوں سے زیادہ کے بعد منعقدہ اس بحث میں کئی رکن ممالک نے حصہ لیا اور 17 غیر خود انتظامی علاقوں کے سوالات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے ایلچی منیر اکرم نے بھارت پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کے لیے سازگار حالات پیدا کرے اور اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کے لیے اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق پرامن تصفیے کو فروغ دے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 کے نام سے مشہور اعلامیے کو اسمبلی کے 15ویں اجلاس کے دوران منظور کیا گیا، یہ اعلامیہ غیر ملکی حکمرانی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے، حق خود ارادیت کی توثیق کرتا ہے اور نوآبادیاتی طرز حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔
جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے کہا کہ چوتھی کمیٹی کا کام ایسے وقت میں اقوام متحدہ میں اعتماد سازی کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے جب کثیرالجہتی نظام اور اس کے ادارے اپنی ساکھ کے حوالے سے مزید بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔
منیر اکرم نے کمیٹی کی سفارشات اور سیکریٹری جنرل سے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے جدید طریقے تلاش کرنے کی درخواست کا خیر مقدم کیا۔
انہوں نے جموں و کشمیر اور فلسطین کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو حق خود ارادیت سے محروم ہیں اور مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے مطالبے کی حمایت کی۔
انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو جدید دور کا نوآبادیاتی منصوبہ قرار دیا جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ماورائے عدالت قتل اور آبادیاتی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کے اجرا اور زمینوں پر قبضے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو اکثریتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات اور سازگار حالات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آبادیاتی تبدیلیوں کے خاتمے پر زور دیا اور اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق پرامن حل کو فروغ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1946 سے اب تک 80 سابق کالونیوں نے آزادی حاصل کی ہے، اس کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو ابھی تک حق خودارادیت سے محروم ہیں، جن میں سب سے نمایاں مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے لوگ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن صرف دو ریاستی حل اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس شریف کی بطور دارالحکومت بحالی کے ساتھ ایک قابل عمل، خود مختار اور متصل فلسطین کی ریاست کے قیام کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ایلچی نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ جدید دور کے استعماری نظام کا بدترین مظہر ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 47 اور بعد کی کئی قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے حتمی اختیار کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کی رائے سے کرنا چاہیے۔
منیر اکرم نے کہا کہ اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں نے ان قراردادوں کو قبول کیا ہے لیکن 75 سال سے زائد عرصے سے طاقت اور دھوکا دہی کے ذریعے بھارت نے ان قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے اور 1989 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ جبر سے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے لیے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کیے ہیں اور کشمیر آج دنیا کا سب سے زیادہ گنجان مقبوضہ علاقہ ہے جہاں 9 لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی قابض افواج نے جعلی مقابلوں اور اغوا میں ماورائے عدالت قتل اور 13 ہزار نوجوان کشمیری لڑکوں کو جبری طور پر لاپتا کرنے کی مذموم مہم چلائی، حقیقی کشمیری قیادت 2019 سے جیل میں بند ہے اور کئی رہنما بھارتی حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔