لائف اسٹائل

ماضی میں مسائل درست کرنے، اب انہیں معمول سمجھنے پر ڈرامے بن رہے ہیں، ثانیہ سعید

اب بھی ان ہی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، جن پر ماضی میں بنتے تھے لیکن اب انہیں بنانے کا نظریہ تبدیل ہوچکا ہے، اداکارہ

سینئر اداکارہ ثانیہ سعید نے کہا ہے کہ ماضی میں مسائل کی نشاندہی اور انہیں درست کرنے کے نظریے کے طور پر ڈرامے بنتے تھے لیکن اب مسائل کو معمول سمجھنے پر بنائے جا رہے ہیں۔

اداکارہ حال ہی میں کامیڈی شو ’مذاق رات‘ میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے شوبز سمیت دیگر معاملات پر کھل کر بات کی۔

اداکارہ نے بتایا کہ انہوں نے بچپن میں ہی وائس اوور کا کام شروع کردیا تھا اور اسی وجہ سے ہی انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں بہت غصہ کرتی تھیں، جس پر انہیں والد نے ہدایت کی کہ وہ غصے میں اچھے لگتی ہیں لیکن وہ غصے کو درست جگہ استعمال کرنا سیکھیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بعض مرتبہ مداح اس طرح رویہ اختیار کرتے ہیں کہ مجبوراً انہیں غصہ کرنا پڑتا ہے لیکن بعد میں انہیں اس بات پر افسوس بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے مداح کے ساتھ غصہ کیوں کیا؟

کرداروں کے شخصیت پر ہونے والے اثرات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ شروع میں ان پر اثر ہوتا تھا لیکن اب وہ اتنا زیادہ کام کر چکی ہیں کہ ان پر کرداروں کا اثر نہیں ہوتا۔

ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ لیکن وہ اپنے اچھے کرداروں کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہیں، انہیں اپنا مہرالنسا کا کردار بہت اچھا لگا تھا، اسی وجہ سے انہوں نے کردار کی کچھ عادتیں اپنا لیں۔

ڈراموں اور اداکاروں پر کی جانے والی تنقید کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر اداکار محنت کرتا لیکن جب وہ خود پر تنقید سنتا ہے تو اسے تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے اور یہ فطری عمل ہے۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ اداکاری اور تنقید ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جو اداکار تنقید کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں رہتا، دراصل وہ کبھی اچھا اداکار ہی نہیں بن پاتا۔

ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ اچھے اداکار کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود پر ہونے والی تنقید کی اچھی چیزیں اپناکر خود کو مزید بہتر بناتا ہے۔

پاکستانی ڈراموں کی کامیابی اور ماضی اور حال میں فرق پر بات کرتے ہوئے سینئر اداکارہ کا کہنا تھا کہ اب بھی ان ہی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، جن پر ماضی میں بنتے تھے لیکن اب انہیں بنانے کا نظریہ تبدیل ہوچکا ہے۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں ڈراموں کو بنائے جانے کا نقطہ نظر دوسرا تھا، اس وقت ڈراموں کو مسائل کی نشاندہی اور انہیں حل کرنے کے نظریے سے بنایا جاتا تھا، اس میں اس طرح پیغام دیا جاتا تھا کہ کسی کو برا نہیں لگتا تھا۔

ثانیہ سعید کے مطابق لیکن اب ڈراموں کو بنائے جانے کا نظریہ اور نقطہ نظر تبدیل ہوچکا ہے، اب ڈراموں میں مسائل کو دکھا کر یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ سب معمول ہے اور ایسا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ اب ڈراموں کو اسی نظریے سے بنایا جا رہا ہے کہ ہر کوئی دیکھ کر یہ محسوس کرے کہ مسائل سب کے ساتھ ہیں اور انہیں معمول سمجھا جائے۔

’ڈپریشن‘ کے باعث خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی، آئمہ بیگ

پہلی بار عامر خان اور سنی دیول ’لاہور 1947‘ کے لیے اکٹھے

شعبہ طب کا نوبل پرائز کورونا ویکسین کی تحقیق کرنے والے 2 سائنسدانوں کے نام