’ناریل کھانے سے بچہ گورا ہوگا‘، حمل کے دوران عورت کو کونسی باتیں سننی پڑتی ہیں؟
’شادی کب کررہی ہو؟‘، ’شادی کی عمر نکلی جارہی ہے!‘ یہ سوالات وہ ہیں جو پاکستانی معاشرے میں لڑکوں کے مقابلے زیادہ تر لڑکیوں کو سننے کو ملتے ہیں، اور جب شادی ہوجاتی ہے تو انہی لوگوں کا اگلا سوال بچے سے متعلق ہوتا ہے لیکن سوالات کی بوچھاڑ صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔
بہت سے غیر شادی شدہ پاکستانیوں کو اکثر اس سوال کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے شادی کیوں نہیں کی، ایسے وقت میں جب زیادہ سے زیادہ لوگ معاشرتی توقعات یا دباؤ کی خاطر شادی نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن جب شادی ہوجاتی ہے تو سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’بچہ کب ہوگا؟‘ ہر تقریب اور دعوت میں ایسے سوالات نہ صرف غیر ضروری بلکہ معاشرے کی سوچ کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
تاہم جب لڑکی حاملہ ہوتی ہے، تو معاشرے کی تمام خواتین کی جانب سے اپنے مفت مشورے حاملہ خاتون کو دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ان میں خاندان کے افراد سمیت ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں آپ جانتے تک نہیں ہیں۔
آج ہم ایسے لوگوں کے وہم اور غلط فہمی یا ٹوٹکوں پر بات کریں گے جنہیں اکثر حاملہ کو سننا پڑتا ہے، ان جملوں سے آپ بھی ضرور واقف ہوں گے۔
1۔ ’جب بچہ پیدا ہو تو شروع سے ہی بچے کو کسی کپڑے میں مضبوطی سے لپیٹ لیں! ورنہ آپ کے بچے کے بازو اور ٹانگیں لمبی نہیں ہوں گی!‘
اکثر لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ نوزائیدہ بچوں کپڑے سے لپیٹنے سے بچے کے بازوں اور ٹانگوں میں نشوونما نہیں ہوتی، تاہم ایسا بالکل نہیں ہے، یہ صرف غلط فہمی پر مبنی خیالات ہیں۔
2۔ ’نومولود بچوں کے کپڑے 40 دن سے زیادہ گھر پر نہ رکھیں، اسے بدقسمتی سمجھا جاتا ہے‘
اس جملے سے لگتا ہے کہ روایتی طور پر یہ جملہ اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ شوہر بچوں کے نئے کپڑے خرید سکیں، تاہم اس کا بچے کی بدقسمتی یا کسی خطرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
3۔ بچے کی پیدائش کے بعد 40 دن تک ماں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے یا حاملہ عورت کو مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے ورنہ ان پر جادوئی اثرات ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کا خیال رکھنا ضروری ہے، گھر سے باہر جانے پر پابندی لگا دینا وہم اور غلط فہمی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
4۔ حاملہ خواتین اور حال ہی میں بننے والی ماؤں کو چاند گرہن کے دوران محتاط رہنا چاہیے، کچھ بھی ہو سکتا ہے، کمرے کے اندر رہیں۔’
یا پھر ’چاند گرہن کے دوران حاملہ خواتین قینچی کا استعمال نہ کریں ورنہ جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کے جسم کا ایک عضو کٹا ہوا ہوسکتا ہے۔‘
5۔ ’اگر حاملہ عورت اپنے بچے کی جنس جاننا چاہتی ہے تو اسے چھوٹے بچوں کے پاس جانا چاہیے، وہ بتا سکتے ہیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی‘۔
کیا واقعی آپ ایسی باتوں کو سچ مانتے ہیں؟ کیا بچے کی جنس معلوم کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس الٹراساؤنڈ کروانے کے بجائے چھوٹے بچے کے پاس جانا چاہیے؟
6۔ ’اتنی بڑی عمر میں حاملہ ہونا درست نہیں،بہت زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘
7۔ ’میں نے سنا ہے کہ حمل کے دوران یہ مخصوص چیزیں پینے یا کھانے سے بچے کا رنگ گورا ہو جائے گا۔‘
8۔ ’خاتون نے مشورہ دیا کہ بچی کی ویکسنگ کر دو، بڑی ہوگی تو بال ختم ہو جائیں گے‘
افسوس کی بات ہے کہ گوری جلد کے بچے پیدا کرنے کے لیے لوگ کئی طریقے آزماتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں، اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے چلا آرہا ہے۔
اس طرح کے مشورے اکثر معاشرتی دباؤ اور معاشرے کے غیر حقیقی معیار اور تصوارت کو جنم دیتی ہیں اور حاملہ والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بچے کی صحت اور تندرستی کو جلد کی رنگت جیسی باتوں پر ترجیح دیں۔
تمام بچے (چاہے ان کی جلد کا رنگ کچھ بھی ہو) خوبصورت ہوتے ہیں، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جلد کی رنگت کا تعین مکمل طور پر جینیات سے ہوتا ہے نہ کہ حمل کے دوران آپ جو کھانا کھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں میں ذہانت اور کردار جیسی خوبیوں کے بجائے بچے کی رنگت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جو بالکل غلط ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق بچے اور حاملہ عورت پر اس طرح کے ٹوٹکے آزمانا ماں اور بچے کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
مذکورہ افواہیں/غلط فہمیاں/وہم پر کان دھرنے کے بجائے اگر ماں اپنی صحت اور بچے کی پرورش پر توجہ دے تو معاشرے کی سوچ بدل سکتی ہے۔