پاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ برقرار رہا تو سابقہ فیصلے محفوظ ہو جائیں گے، حکومت

ایسے بینچ جو اب بھی مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں ان کی سینئر ترین 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے دوبارہ تشکیل ہونی چاہیے، وفاقی حکومت کا جواب

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں اپنا جواب جمع کرادیا ہے، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اگر یہ قانون برقرار رہا تو قانون کے نفاذ سے قبل تشکیل کردہ بینچوں کے ذریعے سنائے گئے فیصلوں کو تحفظ مل جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن کی جانب سے دائر کردہ جواب میں کہا گیا کہ اگر بینچ اب بھی مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں تو ایسے بینچوں کی سینئر ترین 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے دوبارہ تشکیل ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران 18 ستمبر کو فل کورٹ کی طرف سے سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا آئینی ترمیم کے برخلاف آرٹیکل 184(3) سے پیدا ہونے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق عام قانون سازی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے، جس کے جواب میں حکومت نے استدلال کیا ہے کہ اس شق کے تحت عدالت عظمیٰ کا اصل دائرہ اختیار اپنی طرز میں فطری ہوتا ہے اور اسے فوجداری اور دیوانی پہلوؤں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

جواب میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت فیصلوں سے پریشان لوگ انہی بنیادوں پر نظرثانی کے لیے جا سکتے ہیں جو آرٹیکل 185 کے تحت پیش کیے گئے فیصلوں کے جائزے کے لیے دستیاب ہیں۔

پچھلی سماعت پر، فل کورٹ نے متعلقہ فریقین سے کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کے چیلنج کیے گئے 9 شقوں کے سیٹ پر تحریری جواب داخل کریں اور اگلی سماعت 3 اکتوبر کو ہوگی۔

ایک سوال پر کہ کیا پارلیمنٹ کی طرف سے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضابطے سے عدلیہ کی اندرونی آزادی مجروح ہوتی ہے، حکومت نے کہا ہے کہ ادارے کی کارکردگی اور انتظام پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

حکومت نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا مطلب ادارہ جاتی اور انفرادی سطح پر انتظامیہ سے ججوں کی آزادی ہے۔

حوالہ دیا گیا ہے کہ ہارون بارک نے اپنی کتاب A Judge in a Democracy میں لکھا ہے کہ خواہ کوئی بھی ذریعہ ہو، ایک جج کی دباؤ سے آزادی کا مطلب بیرونی دباؤ سے آزادی ہے۔

ہارون بارک کے مطابق ذاتی آزادی دراصل قانونی چارہ جوئی کرنے والی جماعتوں اور عوام سے آزادی کے ساتھ ساتھ ساتھی ججوں اور نظام چلانے والے ذمہ دار ججوں سے آزادی ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا بنیادی مقصد سپریم کورٹ کی اندرونی آزادی یقینی بنانا ہے جس میں بینچوں کی تشکیل کے لیے زیادہ شفاف اور جمہوری نظام متعارف کرایا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ یہ پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کو دی گئی لامحدود صوابدیدی اختیارات محدود کرتا ہے اور اس طرح ججوں کی آزادی میں اضافہ ہوتا ہے۔

حکومتی جواب میں کہا گیا کہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے اصل دائرہ اختیار میں درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل کا مطالبہ بھی عدلیہ کی آزادی سے متصادم نہیں ہے۔

بڑے بینچ کی حکمت

جواب میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت آئینی درخواستوں کی سماعت کے لیے اکثر بڑے بینچ تشکیل دیے جاتے ہیں لیکن زیر بحث ایکٹ اس طرح کی تمام درخواستوں کے لیے یکسانیت کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ ہر ایک کے لیے بڑے بینچ کی حکمت سے مستفید ہونے کا مساوی موقع ہے۔

حکومت نے کہا کہ عدالت عظمیٰ خدشات کی بنیاد پر قوانین ختم نہیں کر سکتی، خاص طور پر جب اس قانون کا مقصد عدلیہ کی آزادی مضبوط اور عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ حلقوں میں طاقت مجتمع ہونے سے روکنا ہے۔

قانون سازی کا اختیار مقننہ کے پاس ہے اور اس کا تقابل سپریم کورٹ کے قوانین کی تشریح کے اختیار سے نہیں ہونا چاہیے۔

جواب میں کہا گیا کہ عدالتی قانون سازی کی بالادستی اس دائرہ اختیار کی حمایت کرتی ہے جہاں ایک غیر تحریری آئین غالب ہوتا ہے۔

جب یہ عدالت قانون کے کسی اصول کو بیان کرتی ہے یا فیصلہ کرتی ہے، تو وہ موجودہ قانون سازی کی تشریح یا وضاحت کے ذریعے کرتی ہے، تاہم ضروری نکتہ یہ ہے کہ قانون کے وہ اصول اور تشریحات مقننہ کے ارادے کا اعلان اور مجسم نمونہ ہیں۔

سکرنڈ میں رینجرز کی کارروائی کے خلاف احتجاج، نگران وزیراعلیٰ کا انکوائری کا حکم

پاکستان کے خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزاد تجارت کے ابتدائی معاہدے پر دستخط

نواز شریف کی وطن واپسی پر قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا، نگران وزیراعظم