’ججز کی تعیناتیوں کیلئے صوابدیدی اختیارات سے عدلیہ کی آزادی سلب ہوئی‘
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہر مرحلے پر ججوں کی تعیناتی کا عمل شفاف اور افراد کے لامتناہی اختیارات سے پاک ہو۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے 36 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ججوں، خاص طور پر چیف جسٹس کے ذریعے تعیناتیوں کے خصوصی طور پر کنٹرولڈ اور ریگولیٹڈ طریقے نے عدلیہ کی آزادی کو ختم کر دیا۔
یہ اپیلیں 10 مئی 2022 کے پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے فیصلے کے خلاف لائی گئی تھیں، جس پشاور ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی (پی سی) کی 19 جنوری 2022 کی سفارشات کو ایک طرف رکھا تھا اور 5 جنوری 2022 کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی تجویز کے مطابق 6 افراد کو پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات کیے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے اپیلیں مسترد کر دیں۔
پارلیمانی کمیٹی نے پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز کے عہدے کے لیے 5 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز فضل سبحان، شاہد خان، خورشید اقبال، کلیم ارشد اور عاصم امام کے نام ان کی سنیارٹی اور اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز کیے تھے۔
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے، ریاست کے دیگر اداروں کے اثر سے آزادی عدلیہ کی آزادی کو محفوظ بنانے اور فروغ دینے کے لیے کافی نہیں ہے، جب تک کہ داخلی اور ادارہ جاتی آزادی کو بھی یقینی نہ بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ججز کی تعیناتی کے عمل کے سلسلے میں احتساب کے بغیر صوابدیدی اختیار سے عدلیہ کی آزادی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ اگر ادارہ جاتی ثقافت میں آزاد ججوں کی قدر نہ کی جائے اور یہ عمل شفاف نہ ہو تو بزور طاقت قائم عدالتی درجہ بندی میرٹ کی دھجیاں بکھیر سکتی ہے، ایسی صورت میں نظام اس بات کو یقینی بنانے کی صلاحیت کھو دیتا ہے کہ ججوں کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے۔
انہوں نے زور دیا کہ پہلے سے طے شدہ معیار کی عدم موجودگی میں اہل افراد کی نامزدگی کرنے کے لیے چیف جسٹس کا لامتناہی اختیار عدلیہ کی آزادی کو فروغ نہیں دیتا اور نہ ہی بہتر بناتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں آمرانہ اور جابر حکومتیں آئین کی تنسیخ کرتی رہیں، یہ عدلیہ بالخصوص سپریم کورٹ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ آئین کی تخلیق ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ نے بار بار سنگین غداری کی کارروائیوں کی توثیق کی اور غاصبوں کو آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 58 (2) (بی) کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے خلاف مزاحمت کے بجائے اس کی توثیق کی، منتخب نمائندے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کا شکار ہوئے اور بہت سے لوگوں کو معمولی غلطیوں پر بھی تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا، 3 منتخب وزرائے اعظم اور متعدد منتخب نمائندوں کو نااہل قرار دے دیا گیا۔