فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف انٹیلیجنس بیورو نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی
وفاقی خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کئی برس قبل فیصلے میں لکھا تھا کہ اس سنگین فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اپنی کمانڈ کے اہلکاروں کو سزا دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جہاں 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔
سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔
بعد ازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔
تاہم آئی بی نے اب فیصلے پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی بی کی نظرثانی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ محکمے کے خلاف عدالتی احکامات خارج کیے جائیں۔
آئی بی نے خود کو قومی سلامتی کے لیے ذمہ دار ملک کی سب سے بڑی سویلین خفیہ ایجنسی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس حکم نامے سے عوام پر ’برا تاثر‘ پیدا ہوا کہ آئی بی اپنے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاست میں ملوث ہے۔
آئی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ مشاہدات ’مبہم حقائق‘ پر مبنی تھے، مزید کہا کہ دھرنے کے دوران، وہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے اور انہیں ٹی ایل پی کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں پہلے آگاہ کیا گیا تھا۔.سپریم کورٹ سے جاری کاز لسٹ میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر 28 ستمبر کو سماعت کرے گا۔
تاہم آئی بی نے سماعت سے ایک روز قبل ہی آج 26 ستمبر کو سپریم کورٹ میں ایک سول متفرق درخواست دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی پیروی نہیں کرنا چاہتے اور اپنی نظرثانی کی درخواست واپس لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور نظرثانی کی درخواست کو واپس لینے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ میں انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل فاعد اسداللہ خان نے متفرق درخواست دائر کی جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی واپس لینا چاہتے ہیں، عدالت نظر ثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دے۔
سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
وکیل نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی بلوچستان کے نگراں وزیر قانون بن چکے ہیں لہٰذا شیخ رشید کے وکیل کی حیثیت سے پیش نہیں ہوسکتے اور ان کے مؤکل شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ 28 ستمبر کو مقرر مقدمے کی سماعت ملتوی کردی جائے۔