نگران وزیراعلیٰ کا سندھ بھر کی تمام 27 پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے آڈٹ کا حکم
سندھ کی تمام پبلک سیکٹر جامعات میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کی رپوٹس کے پیش نظر نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے جامعات، بورڈز اور سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صوبے کی تمام 27 سرکاری جامعات کا آڈٹ کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب نگران وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ جامعات میں سینیٹ کے اجلاس بھی طویل عرصے سے منعقد نہیں ہوئے، تو وہ اس پر بظاہر پریشان نظر آئے۔
مقبول باقر نے متعلقہ حکام سے ایسی جامعات کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات دیے، جنہوں نے اپنے سینیٹ اجلاس منعقد نہیں کیے، جن میں کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بات پر حیرانی ہے کہ ان جامعات میں سینیٹ اجلاس گزشتہ 8 یا 9 سال سے منعقد نہیں ہوئے، اور اب ان کو یہ کروانا ضروری ہے،‘ مزید کہ کہ سینیٹ کسی بھی یونیورسٹی کی وہ باڈی ہے جو اس کا بجٹ منظور کرتی ہے۔
انہوں نے جامعات کی انتظامیہ کو جلد از جلد سینیٹ اجلاس منعقد کرنے کا حکم دیا۔
یہ ریمارکس انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں یونیورسٹی، بورڈز ڈپارٹمنٹ اور سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیے۔
جامعات کو پینشن فنڈز قائم کرنے کی ہدایت
اجلاس کے دوران یہ نقطہ بھی زیر بحث آیا کہ مالی بدانتظامی کی وجہ سے سرکاری جامعات کو بے تحاشا مالی نقصان کا سامنا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے حکام کو کہا کہ تمام 27 پبلک سیکٹر جامعات کا آڈٹ اچھی ساکھ کے حامل آڈیٹرز کے ذریعے کروایا جائے۔
انہوں نے یونیورسٹیز کو بھی حکم دیا کہ وہ اپنے ریٹائرڈ اور عنقریب ریٹائر ہونے والے ملازموں کے لیے پینشن فنڈز قائم کریں تاکہ انہیں پنشن کی بروقت ادائیگی کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی اور دوسری جامعات کے ملازم اپنی پینشن لینے کے لیے در در پھر رہے ہیں، اس سسٹم میں اصلاحات لانے اور اسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ایس ایچ ای سی کے چیئرمین نے نگران وزیر اعلی کو مطلع کیا کہ 2013 میں ایک کمیشن معرض وجود میں آیا تھا جس کا مقصد تحقیق، اعلیٰ تعلیم اور ڈیولپمنٹ کو فروغ دینا تھا۔
وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی جامعات نے اپنی تحقیق کے ذریعے سائنس، ٹیکنالوجی، ادویات اور دیگر شعبوں میں انقلاب برپا کردیا ہے مگر ہماری جامعات نے کوئی قابل تعریف کام نہیں کیا، جن کا عالمی فورم پر حوالہ دیا گیا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے زیادہ تر پی ایچ ڈی ہولڈرز بھی کوئی خاص مہارت نہیں رکھتے، ضرورت ہے کہ اپنی غلطیوں کو جانچا جائے۔