پاکستان

نادرا نے ٹرانسجینڈر افراد کی رجسٹریشن دوبارہ شروع کردی

ایکسٹرنل لیگل ایڈوائس ونگ کے قانونی مشورے کے بعد نادرا آئینی طور پر ٹرانسجینڈر افراد کے شناختی کارڈ جنس کی تبدیلی کے ساتھ پرنٹ کرنے کا پابند ہے، نادرا

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ٹرانسجینڈر افراد کی رجسٹریشن تین ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع کردی۔

نادرا سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ رجسٹریشن روکنے کے لیے جاری کیا گیا حکم نامہ واپس لیا گیا ہے۔

نادرا کی پبلک انگیجمنٹ ڈائریکٹر ردا قاضی نے پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نادرا نے ٹرانسجینڈر کی جنس کی تبدیلی کے ساتھ شناختی کارڈز کی پرنٹنگ شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانسجینڈر کے جنس کے ساتھ شناختی کارڈز کی پرنٹنگ وفاقی شرعی عدالت میں جانے کے بعد بعد روک دیا گیا تھا لیکن اب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں اپیل کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایکسٹرنل لیگل ایڈوائس ونگ کے قانونی مشورے کے بعد نادرا آئینی طور پر ٹرانسجینڈر افراد کے شناختی کارڈ جنس کی تبدیلی کے ساتھ پرنٹ کرنے کا پابند ہے۔

ٹرانسجینڈر رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان کی ڈائریکٹر نایاب علی نے نادرا کے فیصلے کی تعریف کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں نایاب علی نے کہا کہ پاکستان میں پوری ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے کارکنوں کو ان کی ان تھک محنت پر مبارک ہو۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے بھی نادرا کے اس فیصلے کو سراہا اور فوری ایکس شناختی کارڈ کے اجرا کے عمل کی تعریف کی۔

این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ این سی ایچ آر شہریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گا اور خاص طور پر پسماندہ طبقے کے لیے جدوجہد کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ بہت سارے حقوق کی فراہمی مصدقہ قومی شناختی کارڈ سے منسلک ہے۔

خیال رہے کہ نادرا نے رواں برس مئی میں وفاقی شرعی عدالت کے ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کی مختلف شقوں کے خلاف فیصلے کے بعد ایکس شناختی کارڈ کا اجرا روک دیا تھا تاہم وکلا، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بحال کرنے پر زور دیا تھا۔

جولائی میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چینلج کردیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے جبکہ وہ مرد یا عورت بھی نہیں کہلوا سکتے۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے لہٰذا حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ایسے افراد کو طبی، تعلیمی، معاشی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام حقوق فراہم کرے۔

وفاقی شرعی عدالت نے کہا تھا کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں اور خواجہ سرا آئین میں درج تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب جنس کی بنیاد پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔

یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

بعد ازاں قومی اسمبلی نے 2018 میں ٹرانسجینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹ ایکٹ منظور کیا تھا تاکہ انہیں قانونی شناخت دی جائے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ٹرانسجینڈر افراد کی شناخت یقینی بنائی جائے۔

ستمبر 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور ٹی وی میزبان اوریا مقبول جان کے ساتھ ساتھ ٹرانجینڈر افراد الماس بوبی اور ببلی ملک کی درخواست سماعت کے لیے منظور کردی تھی۔

عدالت نے ترمیمی بل 2022 میں اسلام اور آئین سے متصادم تمام شقیں منسوخ کردی تھیں اور بعد ازاں مئی 2023 میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے سیکشن 2 این (3)، سیکشن 2 ایف، سیکشن 3 اور سیکشن 7 کو خلاف شریعت قرار دیا۔

پاکستان 2030 تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے پر عزم

بینائی متاثر کرنے والے انجکشن کے ٹیسٹ سے ذمہ داروں کا تعین ہوجائے گا، نگران وزیراعلیٰ پنجاب

ایشین گیمز: خواتین کے کرکٹ میچ کے دوران میدان میں چینی تماشائیوں کی بڑی تعداد