نور مقدم، سارہ انعام کے والدین کا چیف جسٹس سے کیسز کا نوٹس لینے کا مطالبہ
مقتول نور مقدم اور سارہ انعام کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کیسز کا نوٹس لینے اور انصاف کی جلد فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک بگڑے ہوئے بااثر بچے پھانسی کے پھندے تک نہیں جائیں گے تب تک یہ پیغام نہیں جائے گا کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں۔
اسلام آباد میں سارہ انعام کے والد انعام الرحیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے کہا کہ جو طاقتور لوگوں کے بچے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ان کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ قانون سے کوئی بھی بالادست نہیں ہے۔
شوکت مقدم نے کہا کہ جب تک اس طرح کے بگڑے ہوئے لوگ پھانسی کے پھندے تک نہیں جائیں گے تب تک یہ پیغام نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عدلیہ سے درخواست ہے کہ سارہ انعام کے والدین کو انصاف فراہم کیا جائے، وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی جو ملک اور اپنے خاندان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں۔
شوکت مقدم نے کہا کہ اسلام آباد میں کم اسکول ہیں جہاں سے پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر ایک دوسرے کو جانتے ہیں، نور مقدم کے قاتل زاہد جعفر کی بہن کی کافی سہیلیاں بھی نور مقدم کی دوست تھیں اور زاہد جعفر سمیت تمام ایک دوسرے کو مشورے دیتے تھے، سماج میں اس طرح کے لوگ غمی و خوشی میں شامل ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کو پتا نہیں تھا کہ اس طرح کا درندہ ہمارے گرد گھوم رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لازم ہے کہ والدین اپنے بچوں کی درست تربیت کریں، ’زاہد جعفر‘ جیسے درندوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور ان کو سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔
اس موقع پر سارہ انعام کے والد انعام الرحیم نے کہا کہ سارہ کو بہت درد ناک طریقے سے قتل کیا گیا اور ان کی موت کو ایک سال ہوگیا ہے جو کہ میری زندگی کا سب سے مشکل سال تھا۔
انہوں نے کہا کہ سارہ ساری زندگی باہر رہیں، وہ دبئی میں ملازمت کرتی تھیں، بعدازاں پتا چلا کہ شاہنواز امیر نے انٹرنیٹ کے ذریعے سارہ انعام تک رسائی حاصل کی اور رابطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس خاندان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے کیونکہ سامنے چہرہ ایاز امیر کا تھا۔
انعام الرحیم نے کہا کہ ہمیں پتا نہیں چلا کہ کس طرح بچی کو جال میں پھنسایا گیا اور اس سے مختلف بہانوں سے کروڑوں روپے لیے گئے جو کہ ہمیں بینک جانے کے بعد معلوم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سب کچھ بڑی تیزی سے ہوا، ہمیں سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا، ہم نے پھر بیٹی سے پاکستان آنے کو کہا تاکہ ان کو رسمی طور پر رخصت کریں لیکن پتا نہیں کس وجہ سے اس درندے نے بچی کو قتل کردیا۔
والد نے کہا کہ پولیس نے بہت تفصیل سے اس کیس کی تفتیش کی ہے اور اس کیس کو عدالت تک پہنچایا لیکن ہمیں عدالت سے بار بار تاریخ دی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر ہفتے بدھ کا دن ہمیں دیا جاتا تھا لیکن ملزم کا وکیل عدالت نہیں پہنچتا۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کے وکلا سماعت میں دیر سے پہنچتے یا پھر غیرحاضر رہتے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے یا پھر وہ اتنے مصروف ہیں کہ وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔
انعام الرحیم نے کہا کہ وکیل دفاع نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنایا اور جب بھی سماعت کی تاریخ آتی تو وہ غائب ہو جاتے، کئی گواہ اپنی شہادتیں ریکارڈ کرانے کے لیے عدالت میں آئے لیکن انہیں نہیں سنا گیا، ایک ’اوپن اینڈ شٹ کیس کو پورے ایک سال تک کھینچا گیا۔
نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے چیف جسٹس آف پاکستان سے سارہ انعام قتل اور اسی طرح کے دیگر کیسز کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تیز رفتار ٹرائلز کیے جائیں اور مجرموں کو مثالی سزائیں دی جائیں۔
انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ سارہ انعام قتل کیس میں لواحقین کو عدالتی نظام میں ہر سطح پر انصاف فراہم کیا جائے۔
دوران پریس کانفرنس شوکت مقدم مقدمے میں التوا اور اس تمام دوران انہیں پیش آنے والے چیلنجز اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے۔
سارہ قتل کیس
خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
پولیس نے بتایا تھا کہ 22 ستمبر کو رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعے کو صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔
تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز عامر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کیا اور اس کی لاش باتھ روم کے باتھ ٹب میں چھپا دی۔
پولیس نے اس کی اطلاع پر لاش کو برآمد کیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متوفی کے سر پر زخم پائے گئے تھے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا پولیس ٹیم نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کیا تھا جو ایک بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا۔
نور مقدم قتل کیس
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم گھر سے غائب تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا اور اس کی تلاش شروع کی گئی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔
20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتا چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔