پنجاب: مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن سے درجنوں افراد بینائی سے محروم، تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل
حکومت پنجاب نے گزشتہ روز صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن ’ایواسٹن‘ لگائے جانے سے درجنوں مریضوں کی بینائی ضائع ہونے کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمیٹی 3 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے تجاویز بھی پیش کرے گی۔
پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے آنکھوں میں انفیکشن کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
کمیٹی کی سربراہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر اسد اسلم خان بطور کنوینر کر رہے ہیں جبکہ دیگر اراکین میں ڈائریکٹر جنرل ڈرگز کنٹرول محمد سہیل، میو ہسپتال کے ڈاکٹر محمد معین، لاہور جنرل ہسپتال کی ڈاکٹر طیبہ اور سروسز ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر محسن شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق لاہور، قصور اور جھنگ کے اضلاع میں ذیابیطس کے مریضوں کو آنکھ کے پردے کے علاج کے لیے ایواسٹن انجیکشن لگائے گئے، تاہم یہ انجیکشن شدید انفیکشن کا باعث بنے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور کے بھائی اور ان کے دوست سمیت تقریباً 12 مریضوں کی بینائی چلی گئی۔
قصور میں چوہدری شبیر، میاں اسلم، توفیق اور نسرین بی بی نامی 4 افراد کی بینائی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
شریف ہسپتال میں انجیکشن لگانے والے ڈاکٹر عاصم گل نے بتایا کہ ایواسٹن کو صرف ذیابیطس کے سبب خراب بینائی بحال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، عام طور پر ایک مریض کو 3 سے 4 انجیکشن لگائے جاتے ہیں لیکن اس کیس میں کئی افراد نے اپنی بینائی کھو دی، متاثرہ مریضوں میں سے 3 کی سرجری ہوئی اور ان کی بینائی بحال ہوگئی۔
ڈاکٹر عاصم گل نے بتایا کہ میو ہسپتال کے ہیڈ سرجن پروفیسر اسد اسلام نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ صحت کو خط لکھ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ نوید نامی شخص کی جانب سے فراہم کردہ بیواکیزومیب انجیکشن لینے والے متعدد مریض لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں آنکھوں کو اندھا کرنے والے انفیکشن میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
اس انفیکشن کی وجہ جراثیم سے پاک نہ ہونے والے انجیکشن ہوتے ہیں، ڈاکٹر اسد اسلم خان نے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
میڈیا کو جاری ایک بیان میں ڈاکٹر اسد اسلم نے تجویز دی کہ ایواسٹن انجیکشن صرف شوکت خانم سے خریدے جائیں، انہوں نے اس حوالے سے محکمہ صحت کو بھی آگاہ کردیا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ گودام (جہاں انجکشن رکھا گیا تھا) کو سیل کر دیا گیا ہے اور پنجاب بھر میں ڈرگ انسپکٹرز ان انجکشنز کی خرید و فروخت روکنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ڈاکٹروں اور مریضوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایواسٹن انجیکشن استعمال نہ کریں اور میڈیکل اسٹورز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو اس کی فروخت سے روک دیا گیا ہے، حقائق جاننے کے لیے انجیکشن کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے سینئر رجسٹرار ڈاکٹر نوشیروان عادل نے بیواسکیزومیب کی سورسنگ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ برطانیہ میں قائم کمپنی سے خریدی گئی تھی، ہر شیشی سے 1.25 ملی گرام/0.5 ملی لیٹر کے تقریباً 70 انجیکشن تیار کیے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شوکت خانم، ڈاکٹرز ہسپتال اور سائرہ میموریل ہسپتال میں ان انجیکشنز کو مخصوص اور محفوظ ماحول میں تیار کرنے کی سہولت موجود ہے، تحقیقات میں آلودگی کے ممکنہ ذرائع پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔