پاکستان

مسلم لیگ(ن) قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے خلاف کارروائی سے گریز کرے، خورشید شاہ

مسلم لیگ(ن) محاذ آرائی سے گریز کرے، دونوں سابق فوجی سربراہان کے خلاف کارروائی کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل لگ رہا ہے، رہنما پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی (ّپی پی پی) کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے مسلم لیگ(ن) کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہ کرے اور ایسی محاذ آرائی سے گریز کرے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آئے جب مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے 2017 میں اقتدار سے ہٹائے جانے اور ملک میں جاری بحرانوں کا ذمہ دار دونوں سابق اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو ٹھہرایا ہے۔

نواز شریف نے دونوں سابق فوجی عہدیداروں کا احتساب کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے آلہ کار تھے، ان کا جرم قتل کے جرم سے بڑا ہے، انہیں معاف کرنا قوم کے ساتھ ناانصافی ہو گی، وہ معافی کے مستحق نہیں ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے عوام کو معاشی بدحالی کا شکار کرنے والے ان ’کرداروں‘ کو احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے اس ہفتے کے شروع میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں قومی مجرم قرار دیا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ جس طرح مسلم لیگ(ن) جنرل پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لائی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ ہی بالکل ایسا ہی کرے گی۔

رانا ثنااللہ نے سابق جرنیلوں اور ججوں کے سخت احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پارٹی کی جانب سے پالیسی بیان ہے۔

ڈان نیوز ٹی وی کے شو ’دوسرا رخ‘ میں خورشید شاہ سے جب نواز شریف کے اس بیان کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے دونوں سابق فوجی سربراہان کے خلاف کارروائی کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل لگ رہا ہے۔

خورشید شاہ نے مرحوم فوجی آمر پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی نے اس شخص کو چھوا جس کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا سنائی گئی؟ بعد میں انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور دبئی منتقل کر دیا گیا۔

انہوں نے مسلم لیگ(ن) کو مشورہ دیا کہ وہ تنازعات میں الجھنے سے گریز کرے کیونکہ سیاست دان اکثر خود کو ایسے حالات میں الجھا لیتے ہیں۔

انہوں نے منصفانہ انتخابات کی ضمانت، بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے، میثاق جمہوریت کی پاسداری اور اچھے طرز حکمرانی کی روایات قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی زیر قیادت سابق حکمران اتحاد میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر ہم نے تجویز کیا کہ ہم سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے البتہ اس کے بعد حکومت میں شامل نہیں ہوں گے لیکن ہمیں اس وقت کی اپوزیشن کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر ہم حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے تو وہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائیں گے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ(ن) سے انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرنے کے حوالے سے خورشید شاہ نے کہا کہ نواز شریف کی پارٹی سے وابستہ کچھ لوگ موجودہ نگراں حکومت کا حصہ ہیں، اسی لیے ہم نے ان سے یہ مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اصل نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وزیر احد چیمہ ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن چلاتا ہے وہی وزیراعظم ہوتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور راجا ریاض کے بیچ نگران وزیراعظم کے معاملے پر میچ فکس تھا، دونوں کو پرچی دی گئی تھی اور انہوں نے ناموں کا اعلان کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے چینل تبدیل کرلیا ہے اور اب وہ ہمارے وزیراعلیٰ نہیں ہیں۔

بھارت: ’تم دہشت گرد ہو‘، بی جے پی رہنما کے پارلیمنٹ میں مسلم رکن کے خلاف توہین آمیز ریمارکس

شادی ہوتے ہی حریم شاہ کی شاہین آفریدی کو نصیحت

ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کو کتنی انعامی رقم ملے گی؟