پاکستان

فیصل آباد پولیس کا انسانی حقوق کے مسیحی کارکنان پر مبینہ تشدد

انہوں نے پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی، ایس ایچ او کو دھمکیاں دیں، پولیس کے پاس انہیں روکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، سی پی او

کراچی سے فیصل آباد کا دورہ کرنے والے انسانی حقوق کے دو کارکنوں کو پولیس نے مبینہ طور پر مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا اور ان پر تشدد کیا، پولیس نے تردید کرتے ہوئے ان دونوں پر بدتمیزی کا الزام عائد کیا۔

سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے ایکس (ٹوئٹر) پر یہ معاملہ سلسلہ وار ٹوئٹس کرکے اٹھایا۔

انہوں نے پنجاب پولیس کے اس ایکشن کو ’انتہائی خطرناک اور قابل مذمت قرار‘ دیتے ہوئے کہا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے 2 نمایاں کارکن پادری غزالہ شفیق اور لیوک وکٹر ریورنڈ فادر ایلیزر سدھو کی مدد کے لیے فیصل آباد کا دورہ کر رہے تھے۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق مسیحی پادری سدھو 3 ستمبر کو گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے، ڈان ڈاٹ کام کے پاس دستیاب ایف آئی آر کے مطابق تحصیل جڑانوالہ کے میونگ سانگ ناصرتھ چرچ میں خدمت انجام دینے والے سدھو شام میں چرچ سے گھر واپس آرہے تھے کہ نامعلوم داڑھی والے شخص نے انہیں گولی مار کر زخمی کردیا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ 28 اگست کو چرچ میں تھے، جب کسی نے چرچ کی بیرونی دیوار پر ان کے خلاف قابل اعتراض مذہبی نعرے لکھے، جنہیں پولیس نے ان کی شکایت پر مٹا دیا۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ اس مبینہ واقعے سے چند روز قبل جب وہ اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنے گئے تو کچھ داڑھی والے افراد نے انہیں دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ ’ہمارے نعروں کو چرچ کی دیوار سے ختم کروایا گیا ہے، جلد ہی تم بھی ختم کر دیے جاؤ گے۔

سوشل میڈیا پر جبران ناصر کی پوسٹس کے مطابق ’مقامی پولیس نے غیر قانونی طور پر سدھو کو گرفتار کیا، قید رکھا اور (تشدد) کا نشانہ بنایا، یہ بتانے پر مجبور کیا گیا کہ جڑانوالہ واقعے کے بعد ان پر ہونے والا جان لیوا حملہ خودساختہ تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سدھو کے زبردستی کی گئی کہ وہ بیان دیں کہ ’انہوں نے خود کو گولی ماری تاکہ اصل مجرم محفوظ رہیں‘۔

انہوں نے دوسری پوسٹ میں کہا کہ غزالہ شفیق کو چھوڑ دیا گیا لیکن الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان کے موبائل اپنے قبضے میں رکھے۔

جبران ناصر نے بتایا کہ انہوں نے کسی اور کے فون سے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا، اس نے انکشاف کیا کہ پولیس نے لیوک وکٹر کے چہرے پر کالا کپڑا ڈالا اور اسے اور پادری وکی (سدھو) دونوں کو مارتے پیٹتے لے گئے۔

تیسری پوسٹ میں جبران ناصر نے الزام عائد کیا کہ فیصل آباد میں صدر پولیس تھانے کے اہلکاروں نے لیوک وکٹر کو بری طرح مارا۔

جبران ناصر نے مزید کہا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب، نگران وزیر اعظم اور موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے متاثرین کی مدد کے لیے جڑانوالہ کا دورہ کیا تھا، لیوک وکٹر نے بھی ایسا ہی کیا لیکن وہ طاقت ور اور بااثر نہیں تھے اس لیے پنجاب پولیس نے ان پر تشدد کیا۔

مزید کہا کہ ’پادری غزالہ کو ڈر ہے کہ اگر صرف لیوک وکٹر کو جانے دیا گیا تو پولیس پادری وکی کو مزید تشدد اور نقصان پہنچا سکتی ہے۔

واضح رہے جڑانوالہ کا واقعہ 16 اگست کو پیش آیا، جس کے دوران پرتشدد ہجوم نے تقریباً دو درجن گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی اور انہیں نذر آتش کر دیا تھا، اور مسیحی برادری کی رہائش گاہوں اور علاقے میں مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پر حملہ کیا تھا، پولیس اور مقامی ذرائع کے مطابق تشدد اس وقت شروع ہوا جب کچھ مقامی افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ جڑانوالہ کے سینما چوک میں ایک گھر کے قریب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی تھی، جہاں دو مسیحی بھائی رہائش پذیر تھے۔

ایک اور پوسٹ میں جبران ناصر نے لیوک وکٹر کی ویڈیو شیئر کی، اور کہا کہ ’ویڈیو فیصل آباد کے صدر تھانے سے لیوک وکٹر کی رہائی کے بعد بنائی گئی ہے، ان کے پورے جسم پر زخم کے نشانات تھے، ان کا جرم پادری ایلیزر عرف وکی کے کیس کی سچائی تلاش کرنے میں مدد کرنا ہے، جسے جڑانوالہ واقعے کے چند دن بعد گولی مار دی گئی۔‘

جبران ناصر نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری شروع کروائیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ صرف اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ مسیحی برادری کتنی کمزور ہے اور وہ کس طرح ریاستی حکام کے رحم و کرم پر ہے، لیوک اور پادری غزالہ کو رہا کر دیا گیا ہے، پادری وکی کو مبینہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور اسے شکایت کنندہ سے تبدیل کرکے ملزم بنا دیا گیا، اسی ایف آئی آر میں جو پادری وکٹر پر حملے کے خلاف درج کرائی گئی ہے۔

جبران ناصر نے آج صبح (ایکس) پر پادری غزالہ شفیق کا ایک ویڈیو بیان شیئر کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ کلپ صدر تھانے میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔

غزالہ شفیق نے کہا کہ سدھو کو حراست میں لے لیا گیا اور انہیں اور لیوک وکٹر کو مبینہ طور پر پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا، مزید کہا کہ ان کا وکٹر کا فون بھی پولیس نے لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا صرف ایک مطالبہ ہے کہ اگر ان (سدھو) کے خلاف کوئی کیس ہے، تو ہمیں اس کے بارے میں بتایا جائے۔

ویڈیو ریکارڈنگ کے وقت کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے۔

جب فیصل آباد سٹی پولیس افسر عثمان اکرم گوندل سے جبران ناصر کے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے۔

سی پی او عثمان اکرم گوندل نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ سدھو نے 3 ستمبر کو خود ہی گولی ماری، مزید کہا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، انہوں نے اعترافی بیان دیا ہے اور وہ ریمانڈ پر ہے۔

غزالہ شفیق اور لیوک وکٹر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دونوں وہاں پہنچے اور اسے (سدھو) کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، انہوں نے (پولیس) کے ساتھ بدتمیزی کی اور اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو دھمکیاں دیں، پولیس کے پاس انہیں روکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔

پولیس کے دعوے کو 13 ستمبر کو پریسبیٹیرین چرچ آف پاکستان (پی ایس پی) کی طرف سے جاری کردہ سدھو کے برطرفی کے خط میں دہرایا گیا۔

’یہ خط یہ بتانے کے لیے ہے کہ 13 ستمبر 2023 سے آپ ایلیزر سدھو ولد بشیر مسیح سدھو … اب پریسبیٹیرین چرچ آف پاکستان کے ملازم نہیں ہیں، یہ فیصلہ ان حقائق کی وجہ سے ہے، جو 3 ستمبر 2023 کو آپ کے دائیں بازو پر مبینہ طور پر گولی لگنے کے واقعے کے حوالے سے متعدد ساتھیوں، دوستوں اور خاندان کے اراکین کے ساتھ آپ کی گفتگو کے دوران سامنے آئے، جس میں آپ نے رضاکارانہ طور پر اعتراف کیا کہ یہ خودساختہ چوٹ تھی، اور آپ نے بغیر کسی خوف یا دباؤ کے اس پورے عمل کی منصوبہ بندی کرنے کا اعتراف کیا۔‘

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کے پاس دستیاب خط کی نقل کے مطابق ’ہم کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ جب تک معاملہ منطقی نتیجہ نہیں نکلتا ہم آپ کی ملازمت اور آپ سے پروفیشنل تعلقات ختم کریں۔‘

اُسی دن پی سی پی کی طرف سے جاری ایک پریس بیان کے مطابق سدھو کی پہلی میڈیکل رپورٹ کے نتائج کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ ’یہ انکشاف ہوا کہ ممکنہ طور پر خود گولی اس زاویے سے ماری گئی تاکہ جلد کو کم سے کم نقصان یا کم چوٹ لگے۔

پی سی پی نے بھی سدھو کے ’متضاد بیانات‘ کی بنیاد پر 3 ستمبر کے واقعے کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے۔

پی سی پی نے تمام تحقیقاتی ایجنسیوں سمیت ’اعلیٰ حکام‘ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے سے متعلق تمام حقائق کو منظر عام پر لائیں۔

پی سی پی نے بیان میں بتایا کہ کوئی بھی شخص جھوٹ بول یا کہانیاں بنا سکتا ہے، تاہم حقائق اور سائنس جھوٹ نہیں بولتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک کالی بھیڑ پورے ریوڑ کی ساکھ کو خراب نہ کرے، ہر پادری یا مسیحی سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے اور اپنا ملک چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک شفاف، منصفانہ اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور اگر سدھو، ابتدائی اعتراف، حالات کے ثبوت، گواہوں کی تصدیق، اور پورے واقعے سے متعلق متضاد بیانات کے مطابق قصوروار پائے جاتے ہیں، تو انہیں مثالی سزا دی جائے۔

دریں اثنا، سدھو کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو کی تفصیلات ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے جمع کیں، جو 2 روز قبل ریکارڈ کی گئی تھی، جب اسے مبینہ طور پر اپنا اعترافی بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روتے ہوئے سدھو کے دائیں بازو پر گولی لگی ہوئی ہے، یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے 4 ساتھیوں بشمول ایک 15 سالہ لڑکے کو پولیس نے حراست میں لے رکھا ہے اور انہیں یہ بیان دینے پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے خود کو گولی مالی ہے۔

انہوں نے خود کو گولی مارنے اور چرچ کی دیوار پر قابل اعتراض مذہبی نعرے لکھنے کی تردید کی، سدھو نے مزید دعویٰ کیا کہ انہیں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور تین پولیس اہلکار دن بھر ان کے گھر کے اندر رہے۔

سدھو نے یہ بھی الزام لگایا کہ انہیں پولیس حراست میں کھانا اور پانی فراہم نہیں کیا گیا۔

الیکشن کمیشن پاکستان کی انتخابی رولز میں تبدیلی کی منظوری

تیکھے مسالوں کے امتزاج سے بنا مہکتا ہوا مزے دار ’اچاری چکن‘

شرمین عبید چنائے کے پروجیکٹ کے تحت 19 خواتین فلم سازوں کی دستاویزی فلمیں تیار