پاکستان

خیبرپختونخوا: میڈیکل کالجز میں داخلے کے امتحان میں نقل کا اسکینڈل، ماسٹر مائنڈ سمیت 7 ملزمان گرفتار

نقل کے الزام میں مرد و خواتین سمیت 74 امیدواروں کو گرفتار کیا جبکہ پشاور کے 8 تھانوں میں 19 مقدمات درج کیے گئے، پولیس

خیبرپختونخوا میں پولیس نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کے دوران نقل میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں 7 افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جاری ایک بیان میں سٹی پولیس نے کہا کہ محکمہ پولیس کو صوبہ بھر سے ایم ڈی کیٹ میں نقل کی شکایات موصول ہوئی ہیں جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امیدواروں کو الیکٹرانک گیجٹس بشمول بلوٹوتھ ڈیوائسز کے ذریعے امتحانی مراکز کے باہر سے سوالات کے جوابات موصول ہو رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے امتحانات میں نقل کے الزام میں مرد و خواتین سمیت 74 امیدواروں کو گرفتار کیا جبکہ پشاور کے 8 تھانوں میں 19 مقدمات درج کیے گئے۔

پولیس نے کہا کہ تفتیش کے باقاعدہ آغاز کے بعد پشاور اور کوہاٹ پولیس کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں اس اسکینڈل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ظفر خٹک کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مزید تفتیش کے نتیجے میں ظفر خٹک کے ایک بھائی کے ساتھ ساتھ فہد، فضل سبحان، ارشد، فضل وہاب اور امین اللہ کو بھی گرفتار کیا گیا، جو سب انتہائی تربیت یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

پولیس نے کہا کہ جوائنٹ آپریشن کے دوران پولیس نے گرفتار افراد سے الیکٹرانک آلات برآمد کیے، ان آلات کو فرانزک جانچ کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھیج دیا جائے گا، ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایویلیوایشن ایجنسی (ای ٹی ای اے) کے ملازمین اور گرفتار طلبہ کے کال ریکارڈ کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران ملزمان نے انکشاف کیا کہ ایک ’سینٹرلائزڈ سسٹم‘ موجود ہے جس سے تمام امیدوار بیک وقت رابطے میں رہ سکتے ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ پشاور کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی پولیس نے مائیکروفون، موبائل فون اور ایک اسمارٹ واچ سمیت 44 الیکٹرانک آلات برآمد کیے۔

دریں اثنا اس پیشرفت سے واقف حکام نے کہا کہ محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ٹیسٹ میں چیٹنگ کو جانچنے کے لیے ای ٹی ای اے کا طریقہ کار اور اس کا آئی ٹی سسٹم ناکافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نقل کے اس اسکینڈل میں ملوث افراد نے ڈیوائس اور ٹیسٹ میں مدد کے لیے فی کیس 20 لاکھ روپے سے زائد کے نرخ مقرر کیے تھے، پولیس اس اسکینڈل کی تحقیقات کر رہی ہے اور اب تک 200 سے زیادہ ایف آئی آر درج کر چکی ہے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ اسکینڈل میں ملوث ماسٹر مائنڈ کو ماضی میں پبلک سروس کمیشن سے اس طرح کی کارروائیوں کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا اور پھر متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔

10 ستمبر کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے امتحانی مراکز کے اندر امیدواروں کی جانب سے الیکٹرانک گیجٹس کے استعمال کے حوالے سے ’زیرو ٹالرینس پالیسی‘ اپنائی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ امیدواروں کو داخلے کے وقت تلاشی کے 3 مراحل سے گزرنا ہوتا ہے، علاوہ ازیں امتحانی مراکز کے اندر میٹل ڈیٹیکٹرز کی مدد سے تلاشی بھی لی گئی۔

خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے بتایا کہ صوبے کے سرکاری اور نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ میں 46 ہزار 612 امیدواروں نے شرکت کی اور یہ ٹیسٹ صوبے کے 11 شہروں میں 43 مقامات پر اس کے اور ای ٹی ای اے کی جانب سے منعقد کیا گیا۔

وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ضیا الحق نے بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں امتحانی مرکز میں الیکٹرانک آلات لانے والے امیدوار کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقل کے الزام میں پکڑے گئے امیدواروں کے پیپرز منسوخ تصور کیے جائیں گے اور ان پر آئندہ 2 برس تک کسی بھی ای ٹی ای اے ٹیسٹ میں بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔

کسی جماعت پر پابندی نہیں، توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، نگران وزیراعظم

بیوی کے علاوہ مرد کی بہتر تربیت کوئی نہیں کر سکتا، خلیل الرحمٰن قمر

سکھ رہنما کا قتل: امریکا کا کینیڈا کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کیلئے بھارت پر دباؤ