قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ یونین بحال کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے قائداعظم یونیورسٹی (کیو اے یو)کی طلبہ یونین کو بحال کرنے کے فیصلے کی حمایت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس یونیورسٹی میں طلبہ یونین کی بحالی ایک ایسا اقدام ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی طلبہ یونین کی بحالی کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ فیصلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نیاز احمد اختر کی زیر صدارت سنڈیکیٹ میٹنگ کے دوران کیا گیا، اجلاس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی شرکت کی جو اپنے عہدے کی وجہ سے فورم کے رکن ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کے بعد دوسرے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے سنڈیکیٹ میٹنگ میں شرکت کی۔
1984 میں ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اپنی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف طلبہ کی بغاوت کو کچلنے کی کوشش میں طلبہ یونین پر پابندی لگا دی تھی، اس فیصلے نے پاکستانی سیاسی منظر نامے میں بڑا خلا چھوڑ پیدا کردیا، چار دہائیوں کے بعد
قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ اپنے جمہوری حقوق واپس حاصل کرنے والے پہلے طلبہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس معاملے پر سنڈیکیٹ نے طلبہ کی مثبت اور صحت مند سرگرمیوں میں شمولیت پر تبادلہ خیال کیا، وفاقی سیکریٹری تعلیم وسیم اجمل چوہدری نے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ان کی تائید کی اور ریمارکس دیے کہ جنرل ضیاء کے مارشل لا آرڈر کو 1989 میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی جانب بھی اشارہ کیا جس میں اگرچہ طلبہ کی سیاست میں مشغولیت کو ناپسند کیا لیکن ساتھ منتخب باڈیز کے وجود کی اجازت دی اور طلبہ کے مسائل کو حل کرنے میں ان کے کردار اور غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کرنے پر ان کی تعریف کی، سنڈیکیٹ نے اس معاملے پر 2017 میں سینیٹ کی جانب سے منظور کی گئی متفقہ قرارداد کو بھی اپنے فیصلے میں شامل کیا۔
بحث کے بعد سنڈیکیٹ نے متفقہ طور پر قائد اعظم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ یونیورسٹی کے تمام طلبہ کی نمائندگی کرنے والا منتخب ادارہ ہے، انتخابات کے طریقہ کار اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیلی جائزہ پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں وزارت تعلیم کا ایک نمائندہ، کیو اے یو رجسٹرار کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اسکول آف لا کے ڈائریکٹر بھی شامل ہوں گے، کمیٹی سابقہ طریقہ کار اور قواعد کے ساتھ ساتھ دنیا میں رائج بہترین پریکٹسز کا مطالعہ کرے گی۔ اور دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ سنڈیکیٹ کو پیش کرے گی۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یونین کو کسی بھی نسلی، مذہبی یا سیاسی بنیادوں پر حمایت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یونین طلبہ کی فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کے فروغ کا پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی سفارش کی کہ طلبہ یونین کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کی طرح بنایا جائے جس میں شامل گریجویشن کرنے والوں میں متعدد عالمی رہنما بنے۔
اگرچہ سابقہ حکومتوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے وعدے کیے لیکن اس سلسلے میں کوئی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
2017 میں سینیٹ نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے سینیٹ کمیٹی آف دی ہول کی قرارداد اور سفارش کی منظوری دی تھی لیکن معاملہ بے نتیجہ رہا۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھی ملک بھر میں احتجاج کے بعد طلبہ یونینز کی بحالی کی حمایت کا اظہار کیا، تاہم ایک بار پھر اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ کے دوران چیف جسٹس نے ماحولیاتی استحکام پر زوردیا اور انتظامیہ کو ماحولیات سے متعلق جامع منصوبہ تشکیل دینے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کو پلاسٹک، ہتھیاروں اور منشیات سے پاک انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے ، انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے کیمپس میں صنفی مساوات سے متعلق رپورٹ بھی طلب کی۔
ذرائع نے بتایا کہ سنڈیکیٹ نے کچھ طلبہ کی جانب سے غیر مناسب طریقوں کے استعمال پر بھی غور کیا، یونیورسٹی نمائندوں نے شرکا کو بتایا کہ یونیورسٹی کو بعض اوقات سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس نے سفارش کی کہ انتظامیہ ایسے عناصر کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرانے پر غور کرے۔