حیرت انگیز

’آفیسر آف دی ایئر‘، خواتین کے خلاف جرائم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی خاتون پولیس اہلکار

نیوزی لینڈ میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن پولیس نے سونیا شمروز خان کو آفیسر آف دی ایئر کے ایوارڈ سے نوازا۔

سینئر خاتون پولیس افسر سونیا شمروز خان کو بہترین پولیسنگ اور اعلیٰ خدمات پر نیوزی لینڈ میں عالمی ویمن پولیس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن پولیس نے انہیں آفیسر آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا۔

ایوارڈ کی تقریب رواں ہفتے کے شروع میں نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں منعقد کی گئی، تقریب میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سونیا شمروز خان کو آفیسر آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تقریب میں دنیا بھر کے سفیر، 75 ممالک کی 350 خواتین سمیت اہم شخصیات شریک تھیں۔ فخر پاکستان سونیا شمروز خان 60 سالہ تاریخ میں آفیسر آف دی ایئر ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی ایشیائی اور دوسری مسلمان خاتون ہیں۔

سونیا ضلع بٹگرام کی ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے طور پر تعینات ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے دو سال تک چترال میں ذمہ داریاں سنبھالیں جہاں انہوں نے صنفی جرائم اور جبری شادیوں کے خلاف شکایت سیل قائم کیا تھا۔

سونیا شمروز خان نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں پہلی ایشیائی اور دوسری مسلم خاتون ہوں جس نے پولیسنگ اور کمیونٹی سے متعلق اعلیٰ خدمات کے لیے آفیسر آف دی ایئر ایوارڈ حاصل کیا ہے۔‘

سونیا شمروز خان نے اپنا ایوارڈ اپنے والدین، پولیس فورس اور صنفی بنیاد پر تشدد سے بچ جانے والے متاثرین کے نام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چترال میں خواتین کی شکایات کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے، خواتین کی جانب سے صنفی تشدد اور جبری شادیوں سے متعلق جرائم کو رپورٹ کرنے میں اضافہ ہوا ہے، صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف لڑنا اور کمیونٹی پولیسنگ میں خواتین کی شرکت کی وجہ سے ہی مجھے یہ ایوارڈ ملا ہے۔‘

خاتون پولیس افسر کا کہنا تھا کہ چترال میں انہوں نے صنفی بنیاد تشدد اور کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے خودکشی کرنے والی خواتین کے کیسز میں اضافہ دیکھا، انہیں خواتین کے تحفظ کے لیے سخت محنت کرنا پڑی، پہلے خواتین رپورٹ درج کرنے پولیس اسٹیشن نہیں آتی تھیں تاہم اب خواتین خود ہماری مدد لینے پولیس اسٹیشن آتی ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ’میں نے مقامی خواتین کی غیر مقامی مردوں کے ساتھ شادیوں کو منظم کرنے اور طریقہ کار کے حوالے سے مقامی حکومت میں ایک قرارداد منظور کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایک رسمی طریقہ کار قائم کیا تھا جس کے تحت غیر مقامی لوگوں کو مخصوص طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں شادی سے متعلق شکایات اور کم عمری کی شادیوں کے مسئلے میں کافی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ ’

سونیا شمروز خان نے کہا کہ ابتدائی طور پر خاندان کی جانب سے اعتراضات کے باوجود وہ بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میری فیملی آزاد خیال نہیں ہے اور 2013 میں میرے رشتہ دار نہیں چاہتے تھے کہ میں پولیس کے شعبے میں جاؤں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب مجھے لوگوں نے سراہا اور میرے کام کو تسلیم کیا تو یہ چیلنجز، مواقع میں تبدیل ہوگئے۔‘

ایرانی خواتین ٹائم میگزین کی ’ہیروز آف دی ایئر‘ قرار

خواتین کے عالمی دن پر آئی ایس پی آر کی خصوصی ویڈیو جاری

آئی جی پنجاب سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے ’پولیس ایڈوائزر فار پیس آپریشنز‘ منتخب