پاکستان

مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے خلاف مدد کیلئے باجوہ کی توسیع کے حق میں ووٹ دیا، رانا ثنا اللہ

جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے لیے ووٹ دینا پارٹی کی جانب سے فتنے کے خلاف لڑنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا، رہنما مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سابق جنرلز کے خلاف تنقید جاری رکھے ہوئے ہے، اور انتخابات سے قبل ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کا دوبارہ دعویٰ کر رہی ہے، ایک اہم رہنما نے اعتراف کیا کہ پارٹی نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو روکنے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ’سما ٹی وی‘ پر بتایا کہ جنرل باجوہ کی توسیع کے لیے ووٹنگ (2020 میں) پارٹی کی جانب سے فتنہ (انتشار) سے لڑنے کے لیے ایک حکمت عملی کا اقدام تھا، یہ اصطلاح وہ اکثر سربراہ پی ٹی آئی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیکھیں، بعض فیصلے اس وقت کے تقاضوں کے مطابق اسٹریٹجی کا حصہ ہوتے ہیں، شاید یہ فیصلہ جو ہم نے کیا، اس فیصلے کے بعد جو اثرات مرتب ہوئے، ان میں ہمیں ہدف کو حاصل کرنے یا وہ فتنہ اور وہ فساد جو اس ملک پر مسلط تھا، اس کو کم کرنے یا اس کا سامنا کرنے میں ہمیں مدد ملے، اس صورتحال میں بعض چیزیں نظر اور طرح سے آرہی ہوتی ہیں لیکن اس کے اثرات کچھ اور طرح سے ہوتے ہیں۔

سابق آرمی چیف کی توسیع 2019 میں عدلیہ اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان تنازع کا سبب بنی، جب سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے جنرل باجوہ کی توسیع کے نوٹی فکیشن کو معطل کیا تھا۔

بالآخر 2020 کے اوائل میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور کی تھیں، جس کے سبب سابق آرمی چیف کی توسیع ہو سکی تھی، مسلم لیگ (ن) ان جماعتوں میں شامل تھی جنہوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

رانا ثنا اللہ نے حالیہ دنوں میں سابق اعلیٰ افسران کو دوسری بار تنقید کا نشانہ بنایا، ایک روز قبل انہوں نے سابق جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو ’قومی مجرم‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) جنرل پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لائی، وہی (دونوں) کے ساتھ کیا جائے گا۔

انہوں نے پارٹی کے قائد نواز شریف کے حالیہ بیان کو بھی تقویت دی، جس میں سابق جنرلز اور ججز کے ’سخت احتساب‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ پارٹی کی جانب سے پالیسی بیان ہے۔

چند روز قبل لاہور میں پارٹی ٹکٹ ہولڈرز سے ایک آن لائن خطاب میں نواز شریف نے کہا تھا کہ (سابق) چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کے آلہ کار تھے۔

تاہم، اسی روز نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے والد کے سخت تبصرے میں تلخی کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اور نہ ہی میں بدلہ لینے پر یقین رکھتے ہیں‘۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قائد نے رہنماؤں سے کہا تھا کہ وہ جنرل (ر) باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید اور کچھ سابق اور موجودہ ججوں کے خلاف ’جارحانہ مؤقف‘ اپنائیں۔

دریں اثنا، شہباز کیمپ سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کے سخت مؤقف کے بعد متعدد حلقوں نے پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے پر انتہائی پوزیشن اختیار نہ کریں۔

گزشتہ روز لندن روانے ہونے والے شہباز شریف ممکنہ طور پر اپنے بھائی کو لہجے کو نرم کرنے پر راضی کریں گے۔

رہنما نے بتایا کہ جب سے شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی انہوں نے جنرل (ر) باجوہ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسے معاملات میں کتنے محتاط ہیں۔

نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بند کرپشن کیسز بحال

والدہ کے علاج کیلئے پیسے مانگے تو لوگوں کے سامنے رونا پڑا، فضا علی غصہ ہوگئیں

سپریم کورٹ: فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر