سپریم کورٹ: فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے 28 ستمبر کو مقرر کردی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ سے جاری کاز لسٹ میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر 28 ستمبر کو سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔
بعد ازاں اس فیصلے کے خلاف اپریل 2019 میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے وزارت دفاع توسط سے، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پی ٹی آئی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ’ کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو’ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اجتماع اور احتجاج کرنے کی حد اس وقت تک دائرے میں ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق، اس کی آزادانہ نقل و حرکت اور املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری ضرور پوری کرے، ساتھ ہی عدالت نے یہ کہا تھا کہ ای سی پی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ قانون کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو ان کی ذرائع آمدن کا حساب دینا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کراچی میں 12 مئی 2007 کے وکلا کے احتجاج کا ذکر اور ’سڑکوں پر پرامن شہریوں کے قتل اور اقدام قتل کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں‘ ریاست کی ناکامی کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سے برا اثر پڑا اور دوسروں کو تقویت ملی کہ وہ اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے بدامنی پھیلائیں’۔
فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ ’ نفرت، انتہاپسندی اور دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کی جائے اور قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے’۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز پبلک ریلیشن کو ’اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے‘۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’بہتر ہوگا کہ ان قوانین کا اطلاق کیا جائے جو خفیہ اداروں کے متعلقہ دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوں تاکہ شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو اچھے طریقے سے یقینی بنایا جاسکے‘۔
عدالت نے کہا تھا کہ ’آئین مسلح فورسز کے افراد کو کسی طرح کی بھی سیاسی سرگرمی، جس میں سیاسی جماعت، گروہ یا فرد کی حمایت ہو اس سے منع کرتا ہے، حکومت پاکستان کو وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں‘۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔