دنیا

آذربائیجان کی کاراباخ میں کارروائی معطل، آرمینیائی علیحدگی پسند ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار

آرمینیائی علیحدگی پسندوں نے اسلحہ حوالہ کرنے اور کاراباخ سے پڑوسی ملک آرمینیا جانے پر اتفاق کرلیا ہے اور قبیلے کے مستقبل پر مذاکرات ہوں گے، رپورٹ

آذربائیجان نے کہا ہے کہ نیگورنو-کاراباخ میں آرمینیائی علیحدگی پسند فورسز کی جنگ بندی پر آمادگی کے بعد فوجی کارروائی روک دی گئی ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق دونوں فریقین نے معاہدے کی تصدیق کی ہے اور اس کا اطلاق ایک بجے سے ہوگیا ہے، اس معاہدے کے تحت علیحدگی پسند فورسز واپس ہوگی گے اور اسلحہ حوالہ کریں گے اور اس کے ساتھ خطے اور آرمینیائی قبائل کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات جمعرات کو شروع ہوں گے۔

نیگورنو۔کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے اختتام کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے اور وہ علاقے میں اپنا آبائی وطن قرار دیتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل کے خدشات کے پیش نظر ہزاروں آرمینائی افراد کاراباخ کے دارالحکومت اسٹیپناکرٹ، جس سے آذربائیجان خانکینڈی کا نام دیتے ہیں، کے ایئرپورٹ پہنچ گئے، دیگر افراد نے روس کی امن فوج کی پناہ گاہ میں جگہ حاصل کیں۔

آذربائیجان نے کاراباخ میں منگل کو اپنی فوجیں بھیجی تھیں اور کارروائی کی تھی تاکہ خطے میں امن بحال کیا جائے اور اس حوالے سے کہا تھا کہ یہ کارروائی ایک لاکھ 20 ہزار آرمینائی قبیلے اور ان کے حقوق کی آئین کے تحت حفاظت کرنا ہے۔

دوسری جانب آرمینیائی افراد شکوک کا اظہار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پڑوسی ملک آرمینیا نے بھی آذربائیجان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ علاقے سے مذکورہ قبیلے کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ باکو کی جانب سے ان رپورٹس کی تردید کی گئی تھی۔

خبرایجنسی کو کاراباخ کی آرمینیائی انتظامیہ کے سابق اعلیٰ عہدیدار روبین ویرڈینیان نے بتایا کہ وہ درحقیقت ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہاں سے جانے کی ضرورت ہے اور یہاں نہیں رہیں یا تسلیم کریں کہ خطہ آذربائیجان کا حصہ ہے اور بنیادی طور پر یہ قبیلے کے خلاف روایتی کارروائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جھڑپوں کے دوران تقریباً 100 افراد مارے گئے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔

اسلحے کی حوالگی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امکان ہے کہ علیحدگی پسند جنگجو کاراباخ چھوڑ دیں گے اور آرمینیا جائیں گے اور اپنے ٹینکس اور توپ روسی امن فوج کے زیر انتظام حوالہ کریں گے۔

آرمینیا کا مؤقف ہے کہ کاراباخ میں ان کی کوئی فورس موجود نہیں ہے اور کوئی فوجی مداخلت نہیں کی جبکہ آذربائیجان کا اصرار ہے کہ آرمینیا کی فوج خطے میں مداخلت کر رہی ہے۔

اس معاہدے کے تحت تاحال واضح نہیں ہے کہ کاراباخ میں آرمینیائی قبیلے کے کتنے افراد مقیم رہیں گے۔

روس کی وزارت دفاع نے کاراباخ کی فوٹیج نشر کی جس میں دکھایا گیا ہے یہ آرمینیائی افراد کو روسی فوجی چھاؤنی کے قریب عارضی پناہ دی گئی ہے، خطے میں روس کے ہزاروں فوج امن مشن کے تحت تعینات ہیں۔

آرمینیا کے نائب وزیرخارجہ پاریئر ہوہنیسیان نے بتایا کہ کاراباخ آرمینیائی افراد کے لیے آذربائیجان کی حکومت زیر بہترین دنیا ہوسکتی ہے لیکن تاریخی تجربہ کے تحت ایسا سوچنا مشکل ہے۔

ادھر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے آذربائیجان کی فوج پر تازہ کارروائی پر تنقید کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کاراباخ کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے اور باکو کی کارروائیوں کی وجہ سے خطے میں پہلے خراب صورت حال مزید گھمبیر ہو رہی ہے اور آذربائیجان نے خطے کو 9 ماہ سے بلاک رکھا ہوا ہے، جس سے کھانے پینے کی اشیا اور دیگر مصنوعات کی بدترین قلت پیدا ہوگئی ہے۔

آذربائیجان کے صدارتی مشیر برائے خارجہ پالیسی حکمت حاجیوف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مداخلت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عملی طور پر کسی مسئلے کے حل کی ضرورت پڑی تو کام کیا جائے۔

یاد رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 27 ستمبر 2020 کو نیگورنو-کاراباخ پر لڑائی کا آغاز ہوا اور ان جھڑپوں میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔

بعد ازاں ترکی اور روس کی ثالثی میں نومبر 2020 میں دونوں ممالک نے لڑائی ختم کرکے علاقے میں 2 ہزار روسی فوج کو قیام امن کے لیے تعینات کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

الیکشن کمیشن کی انتخابی ضابطہ اخلاق کے لیے 4 اکتوبر کو سیاسی جماعتوں کو مشاورت کی دعوت

کانز کے بعد ٹورنٹو فیسٹیول میں بھی ’ان فلیمز‘ پیش

انصاف کی بہتر فراہمی کیلئے سپریم کورٹ ججز، وکلا پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے، پاکستان بار کونسل