کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کا ملوث ہونا پاکستانی کیلئے ’حیران کن نہیں‘، سیکریٹری خارجہ
سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کہا ہے کہ کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے بیان پر حیرانی نہیں ہے اور دنیا کو بھارت کے ہتھکنڈوں کا احساس ہونا چاہیے جسے وہ ’ایک ناگزیر اتحادی‘ سمجھتی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسیوں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سائرس قاضی نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز نیویارک میں اقوام متحدہ کے مشن میں پریس بریفنگ کے دوران کیا، جہاں وہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں شرکت کے لیے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسی کی فطرت سے واقف ہیں، ہم جانتے ہیں کہ وہ کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سرزمین پر بھارتی بحریہ کے انٹیلی جنس افسر کو پکڑا، وہ ہماری حراست میں ہے اور اس نے اعتراف کیا کہ وہ یہاں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے آیا تھا۔
خیال رہے کہ کینیڈا کا یہ الزام جون میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے حوالے سے ہے، تاہم گزشتہ روز اوٹاوا نے اس معاملے پر بھارت کے اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنٹ کو ملک بدر کر دیا تھا۔
ہردیپ سنگھ نجر نے ایک آزاد ریاست خالصتان کی شکل میں سکھوں کے علیحدہ وطن کی حمایت کی تھی اور جولائی 2020 میں بھارت کی طرف سے انہیں دہشت گرد نامزد کیا گیا تھا۔
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا کے مطابق انہوں نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
کینیڈا نے کہا کہ وہ بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے جوڑنے والے معتبر الزامات کی سرگرمی کا جائزہ لے رہا ہے۔
دریں اثنا وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں ایک ہنگامی بیان میں کہا کہ کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بھارت نے اس قتل کی تحقیقات کی روشنی میں ہونے والے انکشافات کو ’انتہائی سنجیدگی‘ سے نہیں لیا۔
کینیڈا کے فیصلے کے جواب میں بھارت نے بھی گزشتہ روز کینیڈا کے سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے 5 دن کا نوٹس دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا۔
بھارت نے کینیڈا کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور اس کی بجائے کینیڈا سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت مخالف عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کہا کہ کینیڈین وزیر اعظم کے الزام میں کچھ سچائی ضرور ہے، اسی لیے انہوں نے یہ الزام لگایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صورت حال میں پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن اپنے تجربے کو دیکھتے ہوئے، ہم حیران نہیں ہیں۔
فالو اپ سوال کا جواب دیتے ہوئے سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں عدم استحکام میں زیادہ تر بھارتی ملوث پائے جاتے ہیں،کلبھوشن یادیو اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
انہوں نے 3 مارچ 2016 کو پاکستان میں گرفتار ہونے والے سابق بھارتی بحریہ کے افسر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس نے اعترافی ویڈیو میں کہا کہ وہ ملک میں بھارتی ایجنسیوں کے لیے خفیہ اطلاعات جمع کرنے کے لیے آیا تھا۔
بھارت کے ساتھ تنازعات کے بارے میں ایک سوال پر قاضی سائرس نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان کا ردعمل دفاعی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک بھارت کو صحیح طور پر سمجھتا ہے تو وہ ہم ہیں اور پاکستان بہت سے معاملات میں وہ واحد ملک ہے جو بھارت سے نہیں ڈرتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنے سے 60 گنا بڑے حریف ملک کے خلاف عزم کے ساتھ اپنی آزادی کی حفاظت کر رہا ہے، ہم یہ کام پچھلے 70 برسوں سے کر رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید کریں گے۔
ایک بار پھر بھارت-کینیڈا کے تنازع کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس ملک کے وہ کون سے طریقے ہیں جس کو انہوں نے اپنا ناگزیر اتحادی بنایا ہے۔
واضح رہے کہ سکھ رہنما کے قتل کا معاملہ بھارت اور کینیڈا کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات میں اضافہ ہے اور مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔
قبل ازیں نریندر مودی نے جی20 میں کینیڈا کے وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کینیڈا میں انتہا پسند عناصر کی بھارت مخالف سرگرمیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کینیڈا نے بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کے لیے مذاکرات بھی معطل کر دیے تھے اور گزشتہ ہفتے اس کے وزیر تجارت نے اکتوبر میں طے شدہ ملک کا دورہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔
بھارت، کینیڈا کی ٹریول ایڈوائزری
آج بھارت نے اپنے شہریوں کو کینیڈا کے چند علاقوں کا دورہ کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے واضح طور پر اس بات کا ذکر کیے بغیر کہا کہ وہ کینیڈا میں سیاسی طور پر نفرت پر مبنی جرائم اور مجرمانہ تشدد کی وجہ سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہے۔
وزارت کے ایک بیان میں کہا گیا کہ دھمکیوں سے خاص طور پر بھارتی سفارت کاروں اور بھارتی کمیونٹی کے ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جو بھارت مخالف ایجنڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔
وزارت نے کہا کہ اسی لیے بھارتی شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا کے ان علاقوں اور ممکنہ مقامات کا سفر کرنے سے گریز کریں جہاں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔
ایڈوائزری میں مخصوص شہروں یا مقامات کا نام نہیں لیا گیا۔
اس سے قبل کینیڈا نے بھی بھارت میں سفر کے لیے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کی تھی، بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اوٹاوا نے اپنے شہریوں کو عسکریت پسندی کے خطرے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے سے خبردار کیا تھا۔
کینیڈا کی حکومت کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا گیا کہ غیر متوقع سیکیورٹی صورت حال کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مرکزی علاقوں کے سفر سے گریز کریں جہاں دہشت گردی، عسکریت پسندی، شہری بدامنی اور اغوا کا خطرہ ہے تاہم اس ایڈوائزری میں لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقے یا اس کے اندر سفر کرنا شامل نہیں ہے۔
بھارت کی اپوزیشن نے کینیڈا کے شبہات کو مسترد کردیا
بھارت کی مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی نے حکومت کی جانب سے کینیڈا کے ان شبہات کو مسترد کرنے کی حمایت کی ہے کہ نئی دہلی کے ایجنٹوں کا سکھ رہنما کے قتل سے تعلق ہے اور ملک کی خودمختاری کو لاحق خطرات کے خلاف مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
کانگریس کے ترجمان نے بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی اور کینیڈا کے وزیراعظم پر تنقید کی۔
کانگریس کے ایک سینئر قانون ساز ابھیشیک منو سنگھوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا کہ جسٹن ٹروڈو کا دہشت گرد ہردیپ سنگھ نجار کا دفاع بالکل شرم ناک ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ کینیڈا کی موجودہ حکومت خالصتانی ہمدردوں کے ساتھ کس قدر ساتھ کھڑی ہے۔
سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن ’خالصتان پنجاب سے علیحدہ بنایا جائے، اس تحریک کے آغاز کے بعد بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں خونی بغاوت ہوئی تھی اور اس کا ہدف سکھ علیحدگی پسند تھے، اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا اور بالآخر اس مہم کو دبا دیا تھا۔
کانگریس کے چیف ترجمان جیرام رمیش نے ایکس پر کہا کہ ہمارے ملک کے مفادات اور خدشات کو ہر وقت سب سے اول رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس کا ہمیشہ سے یہ ماننا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے ملک کی لڑائی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب دہشت گردی سے بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرہ ہو۔
اس بغاوت کی وجہ سے کانگریس رہنما وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل بھی ہوگیا تھا جنہیں 1984 میں ان کے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا کے نمائندے مخبیر سنگھ نے کہا کہ جسٹن ٹروڈو کے اس بیان سے ان کے ہم وطن شاید حیران ہوئے ہوں گے لیکن سکھ برادری کے لیے یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کئی دہائیوں سے بھارت نے کینیڈا میں سکھوں کو جاسوسی، غلط معلومات اور اب قتل کا نشانہ بنایا ہے۔
مقتول رہنما کے بیٹے بلراج سنگھ نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ سچ کب سامنے آئے گا۔
انہوں نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ امید ہے کہ آپ اسے ایک قدم آگے بڑھائیں گے اور آپ مخصوص افراد کو حاصل کر سکتے ہیں۔
کینیڈا کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور جسٹن ٹروڈو کے اتحادی جگمیت سنگھ نے ستمبر میں دوسرے ممالک خاص طور پر چین کی طرف سے کینیڈا کے معاملات میں مبینہ مداخلت کی شروع کی گئی تحقیقات میں بھارت کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
جگمیت سنگھ نے کہا کہ میرے تجربے کے مطابق ایک سکھ کینیڈین کے طور پر ہمیشہ یہ شکوک و شبہات رہے ہیں کہ بھارت کینیڈا کے جمہوری حقوق میں مداخلت کر رہا ہے اور کل کا اعلان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ شبہات درست ہیں۔