عمران ریاض کی بازیابی کیلئے آئی جی پنجاب کو 26 ستمبر تک کی آخری مہلت
لاہور ہائی کورٹ نے اینکرپرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو 26 ستمبر تک کی آخری مہلت دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر علی بھٹی نے عمران ریاض کے والد کی درخواست پر سماعت کی جہاں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب! مغوی کدھر ہیں؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوا ہے، دوبارہ بھی اجلاس ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال سے اب کارروائی شروع کر دینی چاہیے، آئی جی پنجاب نے استدعا کی کہ عدالت موقع فراہم کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 5 ماہ گزر گئے ہیں، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، آئی جی پنجاب نے کہا کہ صوبائی انٹیلی جنس چیف لاہور میں موجود نہیں تھے، اب جمعہ کے روز ورکنگ گروپ کا دوبارہ اجلاس ہے، عدالت ہمیں اگلے ہفتے تک کا وقت دے دے۔
دوران سماعت عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ صرف 24 گھنٹے کا وقت دے دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہمارا بھی صبر جواب دے چکا ہے۔
دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کو بازیاب کرانے کے لیے آئی جی پنجاب کو 26 ستمبر تک آخری موقع دے دیا اور کیس کی مزید کارروائی 26 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد صحافی عمران ریاض کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد عمران ریاض کو آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا، انتظامیہ کی جانب سے 15 مئی کو عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اینکر پرسن کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا تھا، تاہم تاحال ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔
بعد ازاں اینکر پرسن کے والد محمد ریاض کی شکایت پر 16 مئی کو سیالکوٹ سول لائنز پولیس میں ریاض کے مبینہ اغوا کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔
ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 کے تحت ’نامعلوم افراد‘ اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مبینہ طور پر عمران ریاض کو اغوا کرنے کے خلاف درج کی گئی تھی۔
صحافی کے والد نے بیٹے کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔
19 مئی کو کیس کی سماعت کے دوران اینکر پرسن کے والد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اور اس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس کو 22 مئی تک اینکر پرسن کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس تاریخ کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ اور دفاع کو ہدایت کی تھی کہ وہ اینکر پرسن کی بازیابی کے لیے اپنے آئینی فرائض ادا کریں جب آئی جی پنجاب نے انکشاف کیا تھا کہ ملک بھر کے کسی محکمہ پولیس میں صحافی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس دونوں نے جواب دیا کہ اینکر پرسن ان کی تحویل میں نہیں ہے۔
26 مئی کو ہائی کورٹ نے تمام ایجنسیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اینکر پرسن کو تلاش کرنے اور 30 مئی تک عدالت میں پیش کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
جب تاریخ قریب آئی تو آئی جی پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ جو فون نمبر افغانستان سے ٹریس کیے گئے تھے وہ اس کیس میں ملوث ہیں۔
6 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران اینکرپرسن کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ صحافی کی تلاش کی کوششیں جاری ہیں۔
بعد ازاں 5 جولائی کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے لاپتا صحافی کی بازیابی کے لیے 25 جولائی کا وقت دیا تھا، تاہم عدالتی بینچ کی غیر حاضری کی وجہ سے اس تاریخ پر سماعت نہ ہو سکی۔
وزارت دفاع کی نمائندگی کرتے ہوئے ریٹائرڈ بریگیڈیئر فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہم مقامات اور دیگر مسائل کا سراغ لگانے پر کام کر رہے ہیں، ہم عمران ریاض کو جلد از جلد بازیاب کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عمران ریاض کے وکیل میاں اشفاق علی نے کہا کہ تمام ادارے عمران ریاض کی تلاش کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ جلد بازیاب ہو جائیں گے۔
6 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے لاپتا اینکر پرسن عمران ریاض کو بازیاب کرنے کے لیے آئی جی پنجاب کو 13 ستمبر تک کی مہلت دی تھی۔
دورانِ سماعت آئی جی پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران ریاض کی بازیابی میں کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، آئندہ 10 سے 15 روز میں خوشخبری دیں گے، عدالت ہمیں مہلت فراہم کرے۔
تاہم 13 ستمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ’تفتیش درست سمت‘ میں جا رہی ہے اور 10 سے 15 دنوں میں اچھی خبر دیں گے، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 20 ستمبر (آج) تک ملتوی کر دی تھی۔