دنیا

امریکا، سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے پر غور

معاہدے کے تحت خطے میں یا سعودی سرزمین پر دونوں میں سے کسی بھی ملک پر حملہ کیے جانے کی صورت میں دونوں فریقین عسکری تعاون فراہم کرنے کا عہد کریں گے۔

امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز’ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی اور سعودی حکام ایک باہمی دفاعی معاہدے کی شرائط پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو کہ امریکا کے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اتحادیوں کے ساتھ فوجی معاہدوں سے مشابہت رکھتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت خطے میں یا سعودی سرزمین پر دونوں میں سے کسی بھی ملک پر حملہ کیے جانے کی صورت میں دونوں فریقین عسکری تعاون فراہم کرنے کا عہد کریں گے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو بائیڈن انتظامیہ سے سعودی عرب کو سویلین جوہری پروگرام تیار کرنے میں مدد کرنے کے لیے بھی کہہ رہے ہیں، جس کے حوالے سے کچھ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے لیے استعال کیا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ جو دوسرے اتحادیوں کے ساتھ امریکی معاہدوں سے ملتا جلتا ہو، اس پر یقینی طور پر کانگریس کی جانب سے سخت اعتراضات اٹھائے جائیں گے کیونکہ بعض اراکین پارلیمنٹ، بشمول سرکردہ ڈیموکریٹس، سعودی حکومت کو ناقابل اعتماد شراکت دار سمجھتے ہیں جو امریکی مفادات یا انسانی حقوق کی بہت کم پرواہ کرتا ہے۔

معاہدے کے نتیجے میں یہ سوالات بھی پیدا ہوں گے کہ کیا صدر جو بائیڈن، امریکا کو مشرق وسطیٰ کے ساتھ مزید عسکری طور پر منسلک کر رہے ہیں اور کیا یہ ان کی انتظامیہ کے امریکی فوجی وسائل اور جنگی صلاحیتوں کو علاقے سے دور اور چین کی جانب موڑنے کے بیان کردہ ہدف کے خلاف ہوگا۔

امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بات چیت بنیادی طور پر محمد بن سلمان کے مطالبات کے گرد گھومتی رہی ہے اور یہ معاملہ آج زیربحث آنے کا امکان ہے جب جو بائیڈن، نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران امریکی صدر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والے ممالک کو ملنے والے فوائد کا ذکر کیا۔

امریکی فوج کے جاپان اور جنوبی کوریا دونوں میں اڈے اور فوجی موجود ہیں لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال کسی بھی نئے دفاعی معاہدے کے تحت سعودی عرب میں ایک بڑی نفری تعینات کرنے کے بارے میں کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔

امریکا کے جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ الگ الگ دفاعی معاہدے 20ویں صدی کے وسط میں تباہ کن جنگوں کے بعد طے پائے تھے جب سرد جنگ شدت اختیار کر رہی تھی، اس صورتحال میں امریکا عالمی سطح پر سوویت یونین کی موجودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں اتحاد قائم کرنے پر مجبور ہوا۔

رواں برس جون میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے کانگریس کو بھیجے گئے ایک خط کے مطابق سعودی عرب میں پینٹاگون کے صرف 2 ہزار 700 امریکی فوجی موجود ہیں۔

سعودی عرب-اسرائیل معاہدے کے لیے امریکی صدر کا دباؤ ایک ایسی چیز ہے جس کا محض کچھ عرصے قبل تصور کرنا بھی مشکل تھا، انہوں نے اپنی 2020 کی صدارتی مہم کے دوران سعودی عرب کو تنہا کرنے کا عہد کیا تھا۔

لیکن امریکی حکام نے کہا ہے کہ ایک سفارتی معاہدہ، عرب۔اسرائیل کشیدگی کو کم کرنے کی ایک اہم نشانی ہو گا اور امریکا کے لیے جغرافیائی سیاسی اہمیت کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو امریکا کے قریب لا کر اسے چین سے دور کھینچا جاسکتا ہے اور چین کی مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے لیے تبدیلی کی بنیاد ہوگا، لیکن فریقین کو ایک معاہدے پر اکٹھا کرنا ایک مشکل کام ہے اور کوئی معاہدہ طے پا جانا یقینی نہیں ہے۔

بجلی صارفین سے مزید 30 ارب روپے بٹورنے کا ’منصوبہ‘ تیار

بچوں پر بوجھ نہ ڈالیں، انہیں تعلیم کا لطف اٹھانے دیں!

سکھ رہنما کا قتل، کینیڈا کے بھارت پر الزامات کے بعد اہم ممالک کی تحقیقات کی حمایت