ملزم حاضر ہو: عدالتی کارروائی پر مبنی چند یادگار فلمیں
تھیٹر ہو یا ریڈیو، ٹی وی ہو یا فلم آرٹ کے ہر پلیٹ فارم پر ڈرامائی عناصر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ڈرامائی عناصر سے مراد ہے دل چسپ، جذبات سے لبریز، غیر متوقع مناظر، جو ناظرین کو اسکرین سے باندھے رکھیں۔ اِن پلیٹ فارمز کے لیے ترتیب کردہ کہانیوں میں ان مناظر کو بالخصوص پلاٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے، جہاں جذبات کی فراوانی ہو اور ایسے مناظر کے لیے کورٹ روم سے بہتر بھلا کون سا مقام ہوسکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ فلموں میں پیش کردہ کورٹ رومز ازل سے جاری سچ اور جھوٹ کی جنگ کا حتمی کلائمکس ہیں۔ وہ جگہ جہاں آخری فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ جہاں خیر و شر ایک دوسرے کے مدمقابل آتے ہیں اور ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اس سنسنی خیز عمل میں انسانی احساسات اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور ناظرین کی دھڑکن تھم جاتی ہے۔
گزشتہ کل پاکستانی عدالتی تاریخ میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے کورٹ روم کی مکمل کارروائی پہلی بار ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی۔ یہ واقعہ ایک جانب جہاں تاریخی اہمیت کا حامل تھا وہیں اس نے باذوق ناظرین کے ذہنوں میں ان باکمال فلموں کی یاد بھی تازہ کر دی، جن میں کورٹ روم کی منظر کشی اتنے فنکارانہ انداز میں کی گئی تھی کہ ہر منظر ناظرین کے ذہن پر نقش ہوگیا۔ ذیل میں چند ایسی ہی فلموں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
پرائمل فِیئر (1996ء)
پرائمل فیئر ایک مذہبی پیشوا کے قتل کی سنسنی خیز داستان ہے۔ فلم میں واردات کے فوری بعد پولیس ایرن نامی ایک نوجوان کو گرفتار کر لیتی ہے، جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، جس کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں، سزا یقینی ہے، مگر پھر اچانک شگاگو کا سب سے بڑا وکیل اس نوجوان کا کیس لڑنے کا اعلان کر دیتا ہے۔
سن 1996ء میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار گریگوری ہابلیٹ کی یہ فلم کورٹ روم ڈراما کی مؤثر عکاسی کرتی ہے۔ ایک پرتجسس ناول پر مبنی اس فلم کی کاسٹ متاثر کن تھی۔ فلم میں معروف اداکار رچرڈ گیئر نے مارٹن ویل نامی ایک ایسے متکبر وکیل کا کردار نبھایا ہے، جو کیس جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ نہ صرف حکومت، پولیس، بلکہ خود مارٹن کے ساتھیوں کو بھی یقین ہے کہ قتل نوجوان ایرن نے کیا ہے، مگر مارٹن اسے بچانے کا تہیہ کر لیتا ہے، لیکن یہ اتنا سہل نہیں کہ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ یہ کیس اُسے اپنی سابق پارٹنر، جینٹ (لورا لینی) کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، جو مارٹن کے کام کرنے کے طریقوں کی سخت ناقد ہے۔
یہ ایک پرتجسس فلم ہے، جہاں پل پل صورت حال بدلتی رہتی ہے اور نئے نئے انکشاف ہوتے ہیں، جن میں سب اہم انکشاف ملزم ایرن کا اسپلٹ پرسنالٹی یا دہری شخصیت کا شکار ہونا ہے۔ اسی مرض سے فلم کا یادگار کلائمکس جڑا ہے۔ یہ ایرن کا کردار نبھانے والے ایڈورڈ نوٹن کی اولین فلم تھی۔ یہ کردار ان کے لیے آسکر ایوارڈ کی نامزدگی لے کر آیا، جب کہ گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ان کے نام ہوا۔
اے فیو گڈ مین (1992ء)
عام تاثر ہے کہ ٹام کروز کی کامیابیاں ’ٹاپ گن‘ اور ’مشن امپوسیبل‘ جیسی ایکشن فلموں کی دین ہیں مگر اس اداکار کی فہرست میں ایک باکمال کورٹ روم ڈراما بھی شامل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ 1992ء میں ریلیز ہونے والے ڈائریکٹر، راب راینر کی یہ فلم جان دار ڈائیلاگز، باکمال اسکرین پلے اور متاثر کن کاسٹ کی حامل تھی۔ فلم میں ہمیں ٹام کروز کے ساتھ ساتھ جیک نیکلسن، ڈیمی مور اور کیون بیکن بھی دکھائی دیتے ہیں۔ فلم کی کہانی امریکی فوج کے دو اہل کاروں کے کورٹ مارشل کے گرد گھومتی ہے، جن پر اپنے ہی ایک ساتھی کے قتل کا الزام ہے۔
یہ فلم محض ایک کورٹ روم ڈراما نہیں، بلکہ امریکی افواج کے سخت گیر ڈسپلن، ان کہے آمرانہ اصول اور ڈپارٹمنٹ کی باہمی چپلقش کی بھی عکاسی کرتی ہے، جس کے باعث ٹام کروز کے کردار لیفٹننٹ ڈینیل کو سچائی تک پہنچنے کے لیے کئی بتوں کو توڑنا پڑتا ہے۔
فلم کے کلائمکس میں عدالت میں تناؤ اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور ایک شان دار جرح کے بعد اہم رازوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ 40 ملین کی لاگت سے بنی یہ فلم 250 ملین کا بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے بھی اداکاری، اسکرین پلے اور ڈائریکشن کو قابل تعریف ٹھہرایا گیا۔
لائیر لائیر (1997ء)
عدالتی جنگ اور وکلا کے دلائل صرف سنجیدہ ہی نہیں، مزاحیہ فلموں کا بھی موضوع بنے۔ اس ضمن میں جم کیری کی ’لائیر لائیر‘ نمایاں ہے۔ ایک کامیاب وکیل کی کہانی، جو اپنے مفادات کے لیے کبھی جھوٹ بولنے سے نہیں چوکتا۔ یہ عادت صرف اس کے پیشے تک محدود نہیں، بلکہ ذاتی زندگی کا بھی حصہ بن جاتی ہے اور وہ اپنے خاندان کو نظر انداز کرنے لگتا ہے۔ اور تب اس کا بیٹا اپنی سالگرہ کے روز یہ دعا مانگتا ہے کہ اس کا باپ جھوٹے بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ اس کے بعد فلم میں جو کچھ رونما ہوتا ہے، اسے تفریح اور قہقہوں کا طوفان کہنا مناسب ہے۔
جم کیری اس فلم میں اپنے کیریر کے عروج پر نظر آئے۔ ان کی بے ساختگی، توانائی سے بھرپور اداکاری فلم کی جان ہے، ساتھ ہی فلم اس پیشے سے جڑے مسائل اور سچ کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹوں کی بھی خوبی سے منظر کشی کرتی ہے۔ سن 1997 میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار ٹام شادیاک کی اس فلم نے باکس آفس پر 302 ملین کا بزنس کیا۔ اس کا ناقص ہندی ورژن ”کیوں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا“ کے نام سے سامنے آیا، جس میں گووندا نے جم کیری کا کردار نبھایا تھا۔
فلاڈلفیا (1993ء)
فلم فلاڈلفیا کو کئی حوالوں سے انفرادیت حاصل ہے۔ نہ صرف اس میں پیش کردہ کورٹ روم ڈراما باکمال ہے، بلکہ جس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے، وہ بھی جرات مندانہ ہے۔ بات ہو اداکاری کی، تو یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس فلم میں ہمیں عہد حاضر کے دو بڑے اداکار ٹام ہینکس اور ڈینزل واشنگٹن مرکزی کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے شاید اپنے کیریر کے مشکل ترین کردار نبھائے ہیں۔
ہدایت کار جوناتھن ڈیمی کی فلم ایک سیاہ فام وکیل جوزف ملر(ڈینزل واشنگٹن) کے گرد گھومتی ہے، جس کے پاس اینڈریو بیکیٹ (ٹام ہینکس) نامی ایک شخص اپنا کیس لے کر آتا ہے۔ اینڈریو اپنے کمپنی پر مقدمہ دائر کرنا چاہتا ہے، جس نے اُسے کارکردگی کے بجائے اِس بنیاد پر ملازمت سے برخاست کردیا کہ وہ ایڈز کا مریض ہے۔
یہ پہلا موقع تھا، جب بالی وڈ کی ایک بڑی فلم میں ایڈز، اس سے جڑی غلط فہمیاں، مریضوں کے استحصال اور ہم جنس پرستی کو موضوع بنایا گیا۔ فلم نہ صرف باکس آفس پر کام یاب قرار پائی، بلکہ ناقدین نے بھی اسے قابل تعریف ٹھہرایا۔ اس فلم کے لیے ٹام ہینکس کو بہترین اداکار کے آسکر سے نوازا گیا، جس کا وہ حق دار بھی تھا۔
اس کہانی کو بالی وڈ میں 2004ء میں ’پھر ملیں گے‘ کے عنوان سے فلمایا گیا، جس میں شلپا شیٹھی نے ایڈز کی مریضہ اور ابھیشک بچن نے وکیل کا کردار ادا کیا تھا۔
اینگری مین 12 (1957ء)
بات کورٹ روم ڈراما کی ہو تو شاید ہی کسی فلم نے جدید سنیما پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہوں، جتنے 1957ء میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار سڈنی لومنٹ کی کی فلم Angry Men 12 نے کیے۔ یہ فلم اپنے زمانے کے اس مقبول تھیٹر پلے کو مزید ایک قدم آگے لے گئی۔ چند ناقدین اس کا شمار دنیا کی بہترین فلموں میں کرتے ہیں۔ کورٹ روم ڈراما پر مشتمل فلموں کی بیش تر فہرستوں میں یہ ٹاپ فائیو میں شامل ہے۔
یہ فلم 12 افراد پر مشتمل ایک جیوری کی کہانی ہے، جو جداگانہ اخلاقی و سماجی نظریات اور افکار کے حامل ہیں۔ ان کے روبرو ایک 18 سالہ نوجوان کا کیس ہے جس پر اپنے ظالم باپ کے قتل کا الزام ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق یہ لازم ہے کہ جیوری کے تمام ارکان ایک متفقہ فیصلہ کریں کیوں کہ اب اس نوجوان کی زندگی اور موت ان کے فیصلے پر منحصر ہے۔ بہ ظاہر ملزم کے خلاف شواہد موجود ہیں، مگر کچھ شبہات بھی ہیں۔ یہ شواہد اور شبہات ہی جیوری ممبر کے درمیان بحث، اختلافات اور جھگڑے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
یہ فلم ایک ہی سیٹ پر شوٹ کی گئی ہے اور یہ امر اسے منفرد بناتا ہے۔ فلم جیوری ممبر کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے میں درپیش مشکلات کی عکاسی کرتی ہے اور ساتھ ہی ناظرین کو خود کرداروں کی جگہ رکھ کر ملزم کی بابت فیصلہ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
اس باکمال فلم کوبالی وڈ میں ’ایک رُکا ہوا فیصلہ‘ کے نام سے پیش کیا گیا، جس میں پنکج کپور نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔
ٹو کِل اے موکنگ برڈ
ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ کلاسک کے درجے پر فائز کسی ناول پر مبنی فلم کو بھی کلاسک کا درجہ حاصل ہوجائے۔ ہارپرلی کا 1960ء میں شائع ہونے والا ’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘ ایسا ہی ایک خوش قسمت ناول تھا، جسے نہ صرف پلٹرز پرائز سے نواز گیا، بلکہ جب اس ناول پر بنی فلم ریلیز ہوئی، تو اس پر بھی داد کے ڈونگرے برسائے گے۔
رابرٹ مالیگن کی اس باکمال فلم میں ممتاز اداکار گریگوری پیک نے مرکزی کردار ادا کیا، جن کا شمار اپنے عہدے کے مقبول ترین فن کاروں میں ہوتا تھا۔ گو یہ وجیہ اداکار 5 بار آسکر کے لیے نامزد ہوا، مگر اکلوتا آسکر اسے ٹو کل اے موکنگ برڈ ہی کے لیے ملا۔ فلم میں گریگوری پیک نے ایک وکیل مسٹر فنچ کا کردار نبھایا تھا۔ فلم میں فنچ ایک افریقی امریکی کے کیس کی پیروی کرتا ہے، جس پر ایک سفید فام عورت نے زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ کردار ناول کی مصنفہ ہارپرلی کے والد کی حقیقی زندگی مماثل ہے، جنہوں نے بہ طور وکیل کئی سیاہ فاموں کے کیسز کی پیروی کی تھی۔
اس فلم میں کورٹ روم کے مناظر، سفید فام نسل پرستی، سیاہ فاموں سے متعلق تعصبات اور انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی شان دار منظر کشی کی گئی ہے۔ کورٹ میں فنچ کی سچ کو سامنے لانے کی جستجو، عدالت کا تعصب اور کورٹ کا آخر منظر آج بھی فلم سازوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
قارئین، کورٹ روم ڈراما پر مبنی مذکورہ فلمیں بے شک قابل ذکر ہیں اور اس ضمن میں مرتب کردہ متعدد فہرستوں کا حصہ ہیں۔ البتہ یہ کوئی حتمی فہرست نہیں۔ ہر دور کا فلم بین اپنے ذوق سلیم کے مطابق ایک نئی فہرست مرتب کرسکتا ہے، جو یقینی طور پر قابل قدر ہوگی۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔