پاکستان

وزارت دفاع نے آڈیو لیکس اور ریکارڈنگز میں ملوث ہونے کی تردید کردی

جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، جسٹس بابر ستار

آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے یہ بیان گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں دیا، جہاں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

دونوں کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

وزارت داخلہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اپنے جوابات جمع کرائے، کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

انہوں نے حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کی اور متنبہ کیا کہ عدالت انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو مدعا علیہ کے طور پر مقدمہ میں شامل کرسکتی ہے، حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب کو جج نے غیر تسلی بخش قرار دیا۔

بشریٰ بی بی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے سابق خاتون اول کو ان کے وائس میچنگ ٹیسٹ کے لیے متعدد بار طلب کیا جس کے بعد انہوں نے حکم امتناع کے لیے اپیل دائر کی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ وہ جاری انکوائری کو نہیں روک سکتے اور وکیل کو مشورہ دیا کہ وہ درخواست گزار کے بنیادی حقوق پامال کیے جانے کے خلاف درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ نے توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت سے متعلق پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری کے ساتھ اپنی مبینہ لیک ہونے والی آڈیو پر ایف آئی اے کی جاری تحقیقات کے خلاف حکم امتناع کی درخواست کی تھی۔

جبکہ نجم ثاقب نے درخواست میں اپنی مبینہ آڈیو پر اپنے خلاف پارلیمانی کارروائی کو چیلنج کیا تھا، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار سے رشوت طلب کی تھی۔

بشریٰ بی بی نے لیک ہونے والی گفتگو کو نشر کرنے پر میڈیا پر بھی تنقید کی تھی اور دعویٰ کیا کہ اس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔

ان کی درخواست میں کہا گیا کہ مبینہ آڈیو لیکس اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شرمناک گفتگو درخواست گزار اور ان کے شوہر (جوکہ سابق وزیراعظم ہیں) کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئیں۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ یہ آڈیو الیکٹرانک میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے نشر کی جا رہی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت یا کسی دوسری ریاستی ایجنسی کے پاس شہریوں کے درمیان نجی گفتگو کو ریکارڈ کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ابتدائی حلقہ بندیاں رواں ماہ کے اختتام تک مکمل ہونے کا امکان

چند افراد کے علاوہ دوسرے اداکاروں کو کاسٹ ہی نہیں کیا جاتا، رائما خان

امریکا کا پاکستان کی تجارتی مسابقت کی صلاحیت بڑھانے کے عزم کا اعادہ